کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 670
’’شعر و شاعری سے بھی آپ کو خاص شغف تھا۔ مقامی زبان اور فارسی کی آمیزش سے وہ اپنی شاعری میں اکثر ایک نیا لطف پیدا کر دیتے تھے۔ عبد المنان طرزی نے مجلہ سلفیہ اگست ۱۹۳۸ء سے آپ کے کچھ اشعار نقل کیے ہیں : من مورا تڑپت بن توہرے یک رہ بکنی سویم نظرے ہے لاگی لگن ایسی کہ بھیو ہر تارِ نفس مثلِ شررے جیرا ہمرا تورے بنوں دارد زطپیدن ہا اثرے جیرا ہے کہوت سنسار مگر چوں من نبود شوریدہ سرے‘‘[1] پروفیسر عبد المنان طرزیؔ نے ’’رفتگاں و قائماں ‘‘ کے عنوان سے دربھنگہ کی منظوم ادبی تاریخ لکھی ہے، اس میں علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : شاعر، خطیب، عالم عبد العزیز خادم ناظم تھے مدرسوں کے بانی تھے مسجدوں کے اسلاف کی نشانی تحریک کے تھے بانی ایک خوش بیان واعظ اک کام یاب حافظ شعر ان کا آپ پڑھیے خسروؔ کو یاد کیجیے‘‘[2] مولانا ثناء اللہ سے مقابلہ بیت بازی: اپنے مرض الموت میں مولانا نے یہ واقعہ سنایا: ’’ایک مرتبہ میں اور ثناء اللہ ٹرین سے سفر کر رہے تھے ، رات کسی طرح کاٹنی تھی۔ میں نے ثناء اللہ سے کہا کہ سنتا ہوں کہ تم کو بہت اشعار یاد ہیں ، کیوں نہیں ہم لوگ بیت بازی کریں ، سفر آسان ہو جائے گا۔ وہ تیار ہو گئے اور ہم لوگوں کی بیت بازی شروع ہو گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کو اشعار بہت یاد ہیں ، لیکن ایک خامی ابھی بھی ہے، اشعار تو
[1] دربھنگہ کا ادبی منظرنامہ (ص: ۳۰) [2] رفتگاں و قائماں (ص: ۶۸، ۶۹)