کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 67
بکثرت ہدایا و تحائف بھیجا کرتے تھے۔ اپنے ایک خط میں میاں صاحب، محدث عظیم آبادی کو لکھتے ہیں : ’’جو کچھ تحفہ کمالِ محبت سے بھیجا تھا، ہدیہ محب کا محبوب دل پسند ہوا۔‘‘[1] حضرت میاں صاحب کو بھی علامہ عظیم آبادی سے حد درجہ انسیتِ قلبی اور تعلقِ خاطر تھا۔ ایک مکتوب میں اپنے قلبی جذبات کے اظہار کے لیے فارسی کا یہ شعر لکھتے ہیں : مدتے شد کہ ندیدم گلِ رخسار ترا از خدا می طلبم دولتِ دیدار ترا [2] ’’مدت ہوئی میں نے تمھارے گلِ رخسار کو نہیں دیکھا، میں خدا سے تمھارے دیدارکی دولت مانگتاہوں ۔‘‘ میاں صاحب کے بعض تلامذہ کے مابین بعض علمی امور میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے جنھوں نے مناظرہ بازی کی فضا پیدا کر دی تھی۔ سیّد صاحب اس موقع پر نصیحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’آپ سارے جھگڑے سے یکسو ہو کر شرح ابو داود میں مصروف رہیں ۔ دوسری جانب توجہ نہ کریں ۔ اللہ جل شانہ آپ کو تمام مکروہاتِ زمانہ سے مامون و محفوظ رکھ کر مرادِ دلی پر پہنچا دے اور آخرت بہتر کرے۔‘‘[3] الحمد للہ اس نصیحت پر علامہ عظیم آبادی نے عمل کیا اور شرح ابو داود کی تکمیل ’’عون المعبود‘‘ کے نام سے کی، جس کی تین جلدیں سیّد صاحب کی زندگی ہی میں منظرِ شہود پر آئیں ۔ سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کے سوانحی حالات کے تحفظ اور ان کے علوم و افکار کے احیا و اشاعت میں علامہ عظیم آبادی کو بلند ترین مقام حاصل ہے۔ وہ سید صاحب کے اولین سوانح نگار تھے۔ اپنے لائقِ تکریم استاد کے جو حالات اپنی مشہور تصنیف ’’غایۃ المقصود‘‘ میں لکھے، وہ خود استاد کی زندگی میں طباعت پذیر ہوئے۔ سید صاحب کی رحلت کے بعد سب سے پہلے ان کی سوانح کو یکجا اور مرتب کرنے کا خیال بھی عظیم آبادی ہی کو آیا۔اس ضمن میں مجلہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ میں ’’ضروری گذارش‘‘ کے عنوان سے جو اشتہار شائع ہوا، اس کی عبارت ملاحظہ کیجیے:
[1] مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۴۰) [2] مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۳۴) [3] مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۳۶)