کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 669
کی۔ صادق پوری اثرات میں تربیت حاصل کرنے کا نتیجہ یہ رہا کہ ڈاکٹر صاحب پوری زندگی مسلک عمل بالحدیث پر عامل اور دینی خدمات کے لیے انتہائی متحرک رہے۔ تقدیر انھیں اپنے ڈاکٹری منصب کے فرائض کے لیے دربھنگہ لے آئی جہاں ان کا تعلق مولانا رحیم آبادی سے قائم ہوا۔ مولانا رحیم آبادی ان سے بہت خوش ہوئے، کیونکہ یہ علمائے صادق پور کے پروردہ تھے۔ مولانا رحیم آبادی نے بھی اپنی بیماری کے دنوں میں ڈاکٹر فرید سے رجوع کیا۔ اس طرح یہ میل جول بڑھتا چلا گیا۔ ڈاکٹر فرید صرف ان کے معالج نہیں رہے، بلکہ ان کی تحریک و تبلیغ کا حصہ بن گئے۔ بعد میں یہی ڈاکٹر فرید مولانا کی زندہ یادگار ’’دار العلوم احمدیہ سلفیہ‘‘ کے ناظم بنے اور اس ادارے کو ترقی کے بامِ عروج پر پہنچایا۔ ڈاکٹر فرید نے جس درجہ دینی، ملی اور قومی خدمات انجام دی ہیں ، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہیں ۔ ۲۸ جون ۱۹۵۱ء کو ڈاکٹر فرید کی وفات ہوئی۔ تلامذہ: مولانا کی زندگی بے انتہا مصروف تھی۔ وہ تحریک وتبلیغ اور دعوت و ارشاد میں پوری زندگی منہمک رہے۔ تاہم کسی درجہ تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ ان کے تلامذۂ کرام میں حسبِ ذیل علماء کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہو سکی: 1 مولانا عبد النور دیگمراوی ثم مظفر پوری 2 مولانا عبد الرحیم سالکؔ کوڑوی 3 مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی 4 بابو عبد اللہ رحیم آبادی 5 مولانا حافظ عبد اللہ رحیم آبادی 6 مولانا حافظ محمد صدیق مرولوی 7 مولانا محمود عالم مظفر پوری 8 حافظ محمد عمر رحیم آبادی 9 حافظ عبد الرحمن پیغمبر پوری شاعری: شعر و شاعری سے بھی مولانا کو فطری ذوق و تعلق تھا۔ عربی، فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار انھیں یاد تھے۔ خود بھی شعر کہتے تھے۔ ڈاکٹر سرور کریم ’’دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ‘‘ میں شعرائے دربھنگہ کے ذیل میں مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :