کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 668
بہار میں جماعت اہلِ حدیث کو جو استحکام حاصل ہوا، اس کا ذکر کرتے ہوئے شاداں ؔ فاروقی لکھتے ہیں :
’’حضرت عبد اللہ جماعت اہلِ حدیث سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جماعت کے ساتھ رہیں ۔ اس کی وجہ سے جماعت کی اشاعت دور دور تک ہوئی۔ مولانا عبد العزیز محدث رحیم آبادی نے انھیں سیتا مڑھی کی جماعت اہلِ حدیث کا امیر متعین کیا تھا۔ ان کی اعانتوں کے سبب سیتا مڑھی اور اس کے نواحی علاقوں میں کئی مدارس قائم ہوئے جو ابھی زندہ و رواں ہیں ۔ ان کے اخلاف کا کہنا ہے: سیتا مڑھی چوک کی مسجد انہی کی زمین میں آباد ہے اور انہی کی تعمیر کردہ بھی ہے۔‘‘[1]
مولانا یوسف شمس فیض آبادی:
مولانا یوسف شمس فیض آبادی، مولانا رحیم آبادی سے اپنے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مؤقر جریدے ’’اہل الذکر‘‘ کے اجرائے ثانی کے اداریے میں ’’اہل الذکر‘‘ کے سابقہ مربیانِ علم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آہ! حضرت مولانا عبد العزیز محدث رحیم آبادی رحمہ اللہ کی مقدس صورت اب نظر نہیں آتی جن کی سر پرستی کا ’’اہل الذکر‘‘ جتنا فخر کرتا بجا تھا۔ یہاں تک کہ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس شفیق باپ کے نہ ہونے سے آج اہل الذکر ایک یتیم بچے کی صورت میں قوم کے آگے اپنی یتیمی پر قوم کو حسرت دلارہا ہے اور بزبانِ حال یہ کہہ رہا ہے کے اپنی جماعت کے لیے ایک افسوس فزا منظر ہوں ۔‘‘[2]
ڈاکٹر سیّد محمد فرید:
مولانا کی زندگی کے آخری چند برسوں میں جو اہم ترین شخصیت مولانا سے وابستہ ہوئی وہ ڈاکٹر سیّد محمد فرید کی تھی۔ ڈاکٹر فرید کی ولادت بازید پور (گیا) میں تقریباً ۱۸۸۰ء میں ہوئی۔ اپنے قریبی رشتے کے ماموں مولانا محمد یعقوب صادق پوری کے زیرِ سایہ صادق پور میں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل
[1] تذکرہ بزم شمال (۱/۴۴۷، ۴۴۸)
[2] ’’اہل الذکر‘‘ رجب ۱۳۳۹ھ/ مارچ ۱۹۲۱ء