کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 667
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں بابو عبد اللہ : مولانا رحیم آبادی کے قیام مظفر پور کے دوران میں جو اہم شخصیتیں ان کے حلقۂ بگوش ہوئیں ، ان میں سب سے اہم شخصیت بابو عبد اللہ کی ہے۔ یہ مظفر پور سے تقریباً بیس میل دور اتر کی جانب ایک بستی سرکھریا کی کائستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ مولوی الفت حسین مولا نگری کی صحبتوں سے اسلام کا شوق دل میں پیدا ہوا۔ ان ہی کے ایماء پر مولانا عبد العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ مولانا رحیم آبادی اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔ بابو عبد اللہ ان کے منہ بولے بیٹے بن گئے۔ مولانا نے ان کی خاص تربیت کی اور انھیں اپنی تحریکی و تبلیغی زندگی کا جانشین بنایا۔ بابو عبد اللہ نے مولانا کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ ۱۹۱۸ء میں جب مولانا رحیم آبادی نے وفات پائی تو ان کے قائم کردہ مدرسہ احمدیہ سلفیہ کو محض چند ماہ ہوئے تھے۔ بابو عبد اللہ اس کے پہلے ناظم تھے۔ انھوں نے مولانا کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کیا۔ بابو عبد اللہ نے دسمبر ۱۹۲۸ء میں وفات پائی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ان کی وفات پر لکھتے ہیں : ’’آہ ! عبد اللہ بابو بھی چل بسے۔ مولانا رحیم آبادی کی صلبی نرینہ اولاد نہ تھی لیکن عبد اللہ بابو صلبی کی طرح تھے۔ بہت دنوں تک بیمار رہ کر آخر چل بسے۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون، اللھم اغفرلہ‘‘[1] مولوی عبد اللہ بندھولی: بندھولی (سیتا مڑھی) کے ایک صاحب مولوی عبد اللہ ولد امام بخش تھے۔ مسلک اہلِ حدیث سے شدید رغبت تھی۔ علامہ رحیم آبادی کے حلقۂ ارادت سے وابستہ تھے۔ فارغ التحصیل نہیں تھے، لیکن دین اور علماء سے گہرا تعلق تھا۔ علامہ رحیم آبادی نے ان کی صلاحیتوں کو اچھی طرح سے جان لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں سیتا مڑھی کی جماعتِ اہلِ حدیث کا امیر متعین کر دیا۔ مولوی عبد اللہ بندھولی کی وجہ سے شمالی
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ دسمبر ۱۹۲۸ء