کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 666
کیا گیا ہے کہ عید گاہ کے فرش کو پختہ بنانا جائز ہے۔‘‘[1]
9 ’’جوابِ شیعہ‘‘: مولانا نے ایک شیعہ مصنف کی کتاب ’’رسالۃ الوضوء‘‘ کا جواب لکھا ہے۔
0 ’’الکلام في المولد و القیام‘‘: مولانا رحیم آبادی نے عمل مولد نبویہ کے حوالے سے ہونے والی بدعات کی تردید میں ایک فتویٰ لکھا تھا، جو مختصر رسالے کی شکل میں طبع ہوا تھا۔ اس فتوے کی تردید میں بنگال کے مشہور حنفی عالم شمس العلماء مولوی ابو نصر محمد وحید سلہٹی نے ’’غایۃ الانتباہ لمن جعل اوفہ في قفاہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ بقول حکیم حبیب الرحمن:
’’جس کی عبارت کی تیزی حد سے گزر چکی ہے۔ اس میں قال اقول کے تحت میں بد زبانی، بد مذاقی، طعن و تشنیع کے تمام اخلاق سوز مناظر موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ رسالہ مولف کی ایامِ طالب علمی کا کارنامہ ہے، لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف کی جودت و ذہانت، تیزی و طلاقت، حریفانہ زور آزمائی، توڑ جوڑ کی استادانہ آشنائی، جنگجویانہ اسپرٹ ان کو آئندہ کیا بنانے والی ہیں ۔‘‘[2]
اس کے علاوہ بھی مولانا کے قلم سے کئی مختصر یادگاریں نکلی ہیں ، مگر افسوس وہ دست بردِ زمانہ کی نذر ہو گئیں ۔ سورہ ق کی بھی مولانا نے تفسیر لکھنی شروع کی تھی، معلوم نہیں تکمیل ہو سکی یا نہیں ، تاہم اس کے چند ابتدائی صفحات دریافت ہوئے تھے جنھیں ڈاکٹر عبد العزیز سلفی نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں شامل کر دیا ہے۔ اس طرح نامعلوم اور کتنی تحریریں ہوں گی۔
علماء کی عملی تربیت:
مولانا کی شخصیت بڑی غیر معمولی تھی، وہ شخصیت گر تھے اور کردار کی تعمیر کے ماہر تھے۔ جو ان کے حلقۂ بگوش ہوا، اس کی زندگی بدل گئی اور وہ خدمتِ دین کے لیے مستعد ہو گیا۔ مولانا عملی آدمی تھے، اس لیے ان کے فیضِ صحبت نے اپنے وابستگان میں بھی عمل کی قوت بھر دی۔
[1] جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات (ص: ۴۱۴)
[2] ثلاثہ غسالہ (ص: ۶۰، ۶۱)