کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 664
کے بعد پتا چلتا ہے کہ مولانا شبلی نے سیرۃ النعمان میں حدیث اور اصولِ حدیث، فقہ حنفی اور اس کے اصول و تاریخ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ سطحی معلومات پر مبنی ہے، خصوصیت کے ساتھ خبرِ آحاد، حدیث مرفوع و حدیث معنعن و فرق محدثین و اہل الرائے کے متعلق انھوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اس قدر صریح البطلان اور لغو ہیں کہ محدث تو کیا حدیث کا ایک متعلم بھی ویسی غلطیاں نہیں کر سکتا۔‘‘[1]
اس کے بعد مولانا آروی نے ’’سیرۃ النعمان‘‘ سے کئی مثالیں پیش کی ہیں جن پر مولانا رحیم آبادی نے ’’حسن البیان‘‘ میں نقد کیا ہے، لیکن ہم بخوفِ طوالت انھیں درج کرنے سے قاصر ہیں ۔
2 ’’سواء الطریق ترجمہ مشکوۃ المصابیح‘‘: مولانا نے مشکاۃ کے فصل اوّل میں مندرج احادیث کا اردو ترجمہ کیا تھا اور اس کا نام ’’سواء الطریق‘‘ رکھا۔ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ مظہر علیم انصاری اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں :
’’موضع رحیم آباد مولانا عبد العزیز مرحوم محدث کی جائے ولادت اور مدفن ہے۔ مولانا بڑے پایہ کے عالم تھے۔ مشکاۃ شریف کا ترجمہ اردو میں فرمایا، جس کا نام ’’طریقۃ النجاۃ‘‘ ہے۔‘‘[2]
انصاری صاحب کے سہوِ قلم نے کتاب کا نام ’’سواء الطریق‘‘ کے بجائے ’’طریق النجاۃ‘‘ تحریر فرما دیا ہے۔ ’’طریق النجاۃ‘‘ بھی مشکاۃ کے فصل اوّل ہی کا اردو ترجمہ ہے جو مولانا ابراہیم آروی کے قلم سے ہے۔ ’’سواء الطریق‘‘ پہلی مرتبہ ۱۳۳۴ھ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی اور اس کے بعد ’’دار العلوم احمدیہ سلفیہ‘‘ دربھنگہ سے کئی بار اس کی طباعت ہوئی۔
3 ’’ھدایۃ المعتدي في القرائۃ للمقتدي‘‘: مطبع خادم الاسلام دہلی سے ایک کتاب ’’تحقیق قرائۃ المقتدی‘‘ طبع ہوئی جس میں فاتحہ خلف الامام کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔ مولانا نے اپنے استادِ گرامی سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کے ایما پر اس کا جواب ’’ھدایۃ المعتدي في القرائۃ للمقتدي‘‘ کے عنوان سے دیا۔ کتاب گو مختصر ہے، تاہم اس میں
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء
[2] سفرنامۂ مظہری (ص: ۲۰۱)