کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 663
مولانا عبد المالک آروی لکھتے ہیں : ’’آپ کی ایک نہایت ہی اہم تصنیف ہے، جو سیرۃ النعمان مولانا شبلی کے رد میں ہے، اس کا نام ’’حسن البیان‘‘ ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ مولانا مغفور کو حدیث میں کس قدر انہماک تھا اور تاریخ و رجال ، فقہ و اصول میں آپ کی نظر کس قدر وسیع تھی۔ افسوس ہے یہ کتاب مناظرہ جیسے نا خوش گوار موضوع پر ہے جس نے ہماری وحدتِ ملی کے اندر تشتت و افتراق پیدا کر رکھا ہے، مگر اس کے لیے حضرت مولانا عبد العزیز صاحب سے کہیں زیادہ مولانا شبلی کو موردِ الزام بنایا جا سکتا ہے، جنھوں نے سیرۃ النعمان میں حدیث اور اکابر محدثین کے خلاف لکھ کر ناحق علمائے حدیث میں ایک ہیجان پیدا کر دیا۔ ’’مولانا شبلی بہت سے اوصاف کے مالک تھے، ان میں جتنی عالمانہ صفات تھیں وہ یکجا ہندوستان کے معدددے چند علماء میں ہیں ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی ہمہ گیریوں نے ان کو کسی ایک فن کا بھی ایسا ماہر نہ بنایا جس میں ہندوستان کے اندر اکثر علماء گزرے ہیں ۔ آپ نے اردو کی گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ اردو میں مذہبی علوم اور مسلمانوں کی تاریخ و ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کر دیا، لیکن ان کی بعض کتابیں ماہرینِ فن کے نزدیک نا معتبر رہیں ۔ محدثین کے نزدیک ’’سیرۃ النعمان‘‘ اور ’’سیرۃ النبی‘‘ کا یہی حال ہے اور اربابِ ادب کے نزدیک ’’شعر العجم‘‘ کا بھی وہی انجام ہوا۔ آج کی صحبت میں میں حسن البیان کے ان مقامات کا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جن سے واضح ہوگا کہ مولانا شبلی نے محدثانہ نقطۂ نظر سے ایسی ایسی غلطیاں کی ہیں کہ علامہ موصوف کی طرف ان کو منسوب کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ سیرۃ النعمان کی یہ ساری خامیاں ہمارے صوبہ کے ایک محدث نے پیش کی ہیں ۔ مجھے اس کا اعتراف ہے کہ حسن البیان میں مولانا عبد العزیز صاحب نے کسی قدر سخت لہجہ اختیار کیا ہے، لیکن مولانا شبلی نے محدثین و صحابہ، خطیب بغدادی و خواجہ حسن بصری کے متعلق جو خلافِ شان کلمات استعمال کیے ہیں ، ان کی موجودگی میں ہمارے بہاری عالم قابلِ درگزر ہیں ۔حسن البیان کا گہرا مطالعہ كرنے