کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 662
اپنے اس مضمون کے کئی برس بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک مستقل مضمون ’’حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان۔ مطالعہ و تجزیہ‘‘بھی لکھا ہے جس میں ’’سیرۃ النعمان‘‘ اور ’’حسن البیان‘‘ کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور دکھایا ہے کہ مولانا رحیم آبادی نے جو اعتراضات وارد کیے ہیں ، وہ مبنی بر انصاف ہیں ۔[1]
علامہ شبلی نعمانی کی ’’سیرۃ النعمان‘‘ پہلے پہل ۱۳۰۹ھ/ ۱۸۹۱ء کو منظرِ شہود پر آئی۔ مولانا رحیم آبادی نے اس کا جواب ’’حسن البیان فیما في سیرۃ النعمان‘‘ کے عنوان سے لکھا جو ۱۳۱۱ھ/ ۱۸۹۳ء کو مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوا۔ مولانا شبلی نے اپنی کتاب میں محدثین پر جو ناروا الزامات عائد کیے تھے اور محدثین کے مسلک کو جس طرح سے پیش کیا تھا، وہ تاریخ اور واقعات کے ساتھ ظلم کے مترادف تھا۔ مولانا رحیم آبادی نے ’’حسن البیان‘‘ میں اسی پر گرفت کی ہے۔ مولانا کی گرفت اس قدر مضبوط اور دلائل اس درجہ وزنی تھے کہ خود مولانا شبلی نے اس کا اعتراف کیا اور اپنی کتاب کی تیسری طباعت کے موقع پر کئی اغلاط کی اصلاح کر لی۔ مولانا عبد السلام مبارک پوری لکھتے ہیں :
’’ہم عصر شمس العلماء نعمانی صاحب کی رنگ آمیزیوں کے دل چسپ منظر دیکھنے ہوں تو حسن البیان ہاتھ میں لیجیے۔ حسن البیان، سیرۃ النعمان ہی کے کشفِ حقیقت اور اسی کا سین دکھانے کے لیے لکھی گئی ہے۔ ہم عصر موصوف کے مؤرخانہ، محدثانہ، مجتہدانہ تینوں طرز کی تحریر پر کامل ریمارک ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سیرۃ النعمان کے مطالعہ کا لطف کچھ حسن البیان ہی کے دیکھنے سے آتا ہے۔ مشہور مناظر علامہ رحیم آبادی کی تالیف ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہم عصر نعمانی صاحب نے تیسری بار طبع کرنے میں سیرۃ النعمان کی موٹی موٹی غلطیاں (جیسے غلط آیت نقل کر کے استدلال کرنا، صحیح بخاری کی حدیث کا مطلب نہ سمجھنا اور پھر امام بخاری کے استدلال پر اعتراض کرنا وغیرہ) درست کرلیں ، اور حسن البیان کی تالیف کا اچھا ثمرہ مرتب ہوا۔ ہم حسن البیان کے ناظرین کو مطلع کرتے ہیں کہ حسن البیان کے مطالعہ کے وقت سیرۃ النعمان طبع اول و دوم کا بھی لحاظ رکھیں اور طبع سوم وغیرہ دیکھ کر حسن البیان پر غلط اعتراض کا الزام نہ قائم کریں ۔‘‘[2]
[1] ملاحظہ ہو: سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ (علی گڑھ) جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ء
[2] سیرۃ البخاری(ص: ۲۲۶)