کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 661
قلمی خدمات: علامہ رحیم آبادی نے اپنے گوشہ ہائے حیات کے مصروف تر لمحات میں اپنے کلکِ گوہر بار کو بھی گاہے گاہے جنبش دی۔ ان کی تحریری خدمات کا دائرہ بہت وسیع نہیں ، مگر انتہائی وقیع ضرور ہے۔ اس مختصر سے علمی ذخیرے ہی سے علامہ کے علمی وقار اور زاویۂ نگاہ کی رفعت عیاں ہے۔ وہ کتاب و سنت کا ٹھوس علم رکھتے تھے اور فقہ و فہم کی دولت بے پایاں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تحریری سرمائے کی افادیت مسلمہ ہے۔ مولانا عبد المالک آروی لکھتے ہیں : ’’آپ کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ آپ مذہبی ادبیات کے تمام شعبوں میں بہت صحیح النظر اور کثیر المطالعہ تھے۔ حدیث و فقہ، ادب و معانی، اصول و تفسیر، رجال و سیر، تاریخ و کلام میں آپ کو پوری مہارت حاصل تھی۔ قرآن مجید کے حافظ اور اردو کے انشا پرداز تھے۔‘‘[1] 1 ’’حسن البیان في ما في سیرۃ النعمان‘‘: ڈاکٹر محمود حسن الہ آبادی اپنے مضمون ’’مولانا شبلی کی سیرۃ النعمان اور اس پر معارضات‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ایک کتاب ’’حسن البیان فیما في سیرۃ النعمان‘‘ ہے جو مولانا عبد العزیز محمدی رحیم آبادی (م ۱۳۳۸ھ مطابق ۱۹۲۰ء [2] ) کی تصنیف ہے، جس میں ’’سیرۃ النعمان‘‘ کے ایک قابلِ ملاحظہ جملہ بلکہ فقرہ کا جواب دیا گیا ہے۔ کتاب زبردست علمی قدر و قیمت کی حامل ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے اعتراضات کی روشنی میں ’’سیرۃ النعمان‘‘ کے بعد کے اڈیشنوں میں کچھ اصلاحی ترمیمات کی گئی ہیں ۔ مزید یہ کہ علامہ شبلی نے اس کے بعد اپنی تحقیقات کا رخ موڑ دیا اور مکمل طور سے غیر نزاعی تحقیق کا کام کرتے رہے۔ ’’حسن البیان‘‘ کی زبان موجودہ زمانہ کے لسانی ذوق کی تکمیل نہیں کرتی، نیز اس کے مباحث اتنے ادق ہیں کہ اس سے صرف علماء ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔‘‘[3]
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء [2] درست سنۂ وفات ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹۱۸ء ہے۔ [3] سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ (علی گڑھ) اپریل تا جون ۲۰۰۷ء