کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 660
مولانا کا وارنٹ گرفتاری: مولانا کی ان سرگرمیوں کی بھنک انگریزی حکام کو پڑ چکی تھی۔ محکمہ سی، آئی، ڈی کے خفیہ اہلکار مولانا کے خلاف ثبوت اکٹھے کر رہے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں دربھنگہ کے کلکٹر نے مولانا کو بلوایا اور ایک تحریر پیش کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دینے کے لیے کہا۔ تحریر کا مستفاد یہ تھا کہ مولانا پر حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کے تمام الزامات غلط ہیں اور مولانا ان سے بالکل بری ہیں ۔ کلکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اس تحریر پر دستخط کر دیں ، تاکہ ہم لوگ جس پریشانی میں مبتلا ہیں ، اس سے ہمیں نجات مل جائے اور آپ بھی زیرِ عتاب نہ آئیں ۔ مولانا نے کلکٹر سے کہا کہ آپ اہلِ کتاب ہیں اور میں بھی۔ میں اپنی عمر کی آخری منزلوں میں ہوں ، ایسے میں اللہ سے ملنے کا وقت بالکل قریب آ چکا ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کی تحریروں پر دستخط کر کے کیوں مجھے گناہگار کرتے ہیں ۔ ایک اہلِ دین ہونے کے ناتے آپ کو بھی میرے دین کا خیال کرنا چاہیے۔ مولانا کی زبان میں حیرت انگیز تاثیر تھی۔ انگریز کلکٹر جو پہلے ہی سے مولانا کی عظمتِ کردار کا معترف تھا، مولانا کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔ اس نے مولانا کو با عزت طور سے جانے دیا اور از خود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ لیکن سی، آئی، ڈی کا محکمہ بدستور مولانا کے خلاف مستعد رہا۔ یہاں تک کہ مولانا کی وفات سے چند ایام قبل مولانا کا وارنٹ بھی جاری ہو گیا۔ کسی نے مولانا سے تذکرہ کیا کہ آپ کی گرفتاری کا وارنٹ نکل چکا ہے تو فرمایا کہ اب اصلی وارنٹ جاری ہو چکا ہے، اس وارنٹ کی کیا فکر کی جائے! ایک مسلمان سی، آئی، ڈی اہلکار جو مولانا کا معتقد تھا، مرضِ وفات میں ہر دوسرے تیسرے دن آکر مولانا کو ضرور دیکھ جاتا تھا۔ اس نے مولانا کی گرفتاری کا وارنٹ رکوا رکھا تھا، گویا وہ انتظار کر رہا تھا کہ کب مولانا سجنِ حیات ہی سے رہائی پائیں ، تاکہ اس دنیاوی عذاب سے محفوظ رہیں اور محکمہ بھی حکومتی باز پرس سے بچ جائے۔ و العلم عند اللہ کہ یہ بات کہاں تک درست ہے کہ روزِ وفات پولیس اہلکار گرفتار کرنے پہنچ گئے تھے، لیکن جنازہ دیکھ کر خاموشی سے واپس لوٹ گئے۔