کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 659
جنگِ عظیم اوّل اور مولانا رحیم آبادی:
۲۸ جولائی ۱۹۱۴ء کو جنگِ عظیم اوّل کا آغاز ہوا جو ۱۱ نومبر ۱۹۱۸ء تک جاری رہی۔ اس جنگ کا اصل محور ارضِ یورپ رہا اور وہیں یہ جنگ لڑی گئی۔ خلافتِ عثمانیہ اس جنگِ عظیم میں براہِ راست ملوث تھی، اور چونکہ وہ جرمنی کی اتحادی تھی اس لیے ناکامی کی صورت میں اسے بھی بری طرح خمیازہ بھگتنا پڑا اور اس کے اثرات پوری مسلم امہ پر پڑے۔ ۱۹۲۴ء میں مضمحل اور برائے نام خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ چونکہ متحدہ ہندوستان اس وقت برطانیہ کی نو آبادیاتی نظام کا حصہ تھا، اس لیے یہاں بھی اس کے دور رَس اثرات مرتب ہوئے۔ مولانا رحیم آبادی نے اس موقع پر کیا کردار ادا کیا؟ افسوس کہ آج اس کی نہ معلومات میسر ہیں اور نہ ہی بظاہر تحقیق ممکن ہے۔ تاہم مولانا امام خاں نوشہروی نے مولانا احمد سعید دہلوی کے حوالے سے ایک انتہائی اہم روایت نقل کی ہے۔ مولانا نوشہروی لکھتے ہیں :
’’ممدوح کا اسم گرامی عبد العزیز موضع رحیم آباد علاقہ ترہت بہار، ہمت میں مجاہد سر بکف، گویائی میں کتابِ ناطق، سخاوت میں {يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ } (القرآن)، تحریر میں یدِطولیٰ۔ راقم السطور نے انھیں بارہا دیکھا ’’اور پھر دیکھنے کی ہوس ہے‘‘۔ آپ اس سلسلہ کے داعی تھے۔ ۱۹۱۹ء میں اسمٰعیل شہید ڈے کا جلسہ جامع مسجد دہلی میں ہوا۔ راقم السطور بھی شریک تھا، مولانا احمد سعید دہلوی نے اپنی تقریر میں فرمایا:
’’مولانا عبد العزیز رحیم آبادی نے جنگِ عظیم (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) میں ستر (۷۰) لاکھ گنّی شامی کبابوں میں لگا کر مجاہدین سرحد کو پہنچا دیں ۔
’’اس جلسہ کے صدر مولانا سید داود غزنوی تھے۔ بنگال، بہار، یوپی، تابہ پشاور، مولانا ممدوح کے دُعاۃ سرگرم کار رہتے اور یہ بھی درست ہے کہ مولانا رحیم آبادی کے انتقال کے بعد یہ تحریک پژمردہ ہو کر رہ گئی۔‘‘[1]
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۶ فروری ۱۹۵۴ء