کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 657
کے مطابق جو لوگ اندرونِ ہند جماعت مجاہدین کی امداد و اعانت کے ستون تھے ان میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی بھی شامل تھے۔[1] مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں : ’’مولانا رحیم آبادی جب دہلی تشریف لاتے تو شیخ عطاء الرحمن اور شیخ عبد الرحمن کے ہاں پھاٹک حبش خاں میں قیام فرماتے۔ جمعہ پڑھاتے تو خطبے میں سورئہ ق اوّل سے آخر تک پڑھتے اور مختصر سی تقریر بھی فرماتے۔ پھر وہ حافظ عبد اللہ غازی پوری اور دوسرے علماء و رؤسائے دہلی اوکھلا میں جمع ہوتے۔ وہاں بنوٹ کے کرتب دکھائے جاتے جنھیں دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ انھیں اور حافظ غازی پوری کو مجاہدین سے بڑی الفت تھی اور جہاد کا بہت شوق تھا۔ اسی خیال سے وہ موزوں جوانوں کو منتخب کر کے ان کے لیے سپاہیانہ فنون کے سیکھنے کا انتظام فرما دیا کرتے تھے۔ گھر سے آسودہ حال تھے۔ ہزاروں روپے جماعتی کاموں میں خرچ کیے۔‘‘[2] حافظ عنایت اللہ اثری گجراتی، مولانا رحیم آبادی ہی کی توجہ سے جماعتِ مجاہدین سے منسلک ہوئے۔ مولانا غلام رسول مہر ان سے متعلق لکھتے ہیں : ’’حافظ عنایت اللہ وزیر آباد کے رہنے والے اور حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی کے شاگرد ہیں ۔ غالباً ۱۹۱۳ء سے جماعتِ مجاہدین کے ساتھ آپ کی وابستگی کا آغاز ہوا۔ مارچ ۱۹۱۳ء میں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کا اجلاس بہ مقام امرتسر منعقد ہوا تھا۔ اس میں مولانا عبد العزیز رحیم آبادی بھی تشریف لائے۔ اجلاس کے بعد وزیر آباد کو بھی اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ حافظ عنایت اللہ اس زمانے میں حافظ عبد المنان سے پڑھتے بھی تھے اور اپنی دکان پر درزی کا کام بھی کرتے تھے۔ مولانا رحیم آبادی نے بھی کچھ کام دیا، وہ پورا کر دیا تو مولانا رحیم آبادی بہت خوش ہوئے۔ دہلی پہنچ کر تار کے ذریعے سے بلا لیا۔ تعلیم کے لیے حافظ عبد اللہ غازی پوری کے سپرد کیا جو مدرسہ ریاض العلوم میں پڑھاتے
[1] سرگزشت مجاہدین (ص: ۶۶۳) [2] سرگزشت مجاہدین (ص: ۶۴۳، ۶۴۴)