کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 656
۱۸۶۴ء میں امبیلا کا مشہور واقعہ ہوا جس میں مجاہدین انگریزی حکومت کے خلاف میدانِ کارزار میں اترے اور اسے بھرپور نقصان پہنچایا، جس کے بعد انگریزی حکومت کو بشدت یہ احساس ہوا کہ سرحد پار ان مجاہدین کی مدد اندرونِ ہند سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد انگریزی خفیہ حکام پوری تندہی سے اس کی کھوج میں لگ گئے۔ جلد ہی وہ اس حقیقت تک پہنچ گئے کہ صادق پور پٹنہ اندرونِ ہند مجاہدین کا مرکز ہے۔ انگریزوں نے پوری قوت کے ساتھ اس نظام کو توڑنے کی کوشش کی۔ پانچ بڑے مقدماتِ سازش قائم کیے گئے، جن میں اندرونِ ہند جماعت مجاہدین کے اساطین کو گرفتار کیا اور کالاپانی کی سزائیں دیں ۔ پہلا مقدمہ سازش انبالہ ۱۸۶۴ء میں ، دوسرا مقدمہ سازش پٹنہ ۱۸۶۵ء میں ، تیسرا مقدمہ سازش مالدہ ۱۸۷۰ء میں ، چوتھا مقدمہ سازش راج محل اکتوبر ۱۸۷۰ء میں اور پانچواں مقدمہ سازش پٹنہ ۱۸۷۱ء میں قائم کیے۔
اندرونِ ہند جماعت کے امراء مولانا یحییٰ علی صادق پوری، مولانا عبد الرحیم صادق پوری، مولانا احمد اللہ صادق پوری،مولانا مبارک علی، مولانا تبارک علی وغیرہم گرفتار ہوئے۔ جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ایسے وقت میں جب کہ جماعتِ مجاہدین اندرون و بیرونِ ہند سخت مشکلات کا شکار تھی اور انتہائی صبر آزما حالات سے گزر رہی تھی، حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے تلامذۂ کرام آگے بڑھے اور علمائے صادق پور کے معاون بنے۔ مولانا ابراہیم آروی، علامہ رحیم آبادی، حافظ عبداللہ غازی پوری وغیرہم نے جماعت مجاہدین میں بھرپور عملی حصہ لیا۔ علامہ رحیم آبادی نے اس وقت تحریک کی قیادت کا بار سنبھالا جب حالات انتہائی دگرگوں تھے۔ مولانا عبد الرحیم صادق پوری کی کالا پانی سے واپسی تک وہی ان امور کے نگراں تھے۔ مولانا صادق پوری کی آمد کے بعد بھی جماعت مجاہدین سے ان کا انسلاک بدستور برقرار رہا۔
یہ جماعت مجاہدین کی تاریخ و تحریک کا خفیہ دور تھا، اس لیے بہت سی حقیقتیں اوراقِ تاریخ میں نمایاں تو درکنار محفوظ بھی نہ رہ سکیں ۔ آزادیِ ہند کے بعد افرا تفری اور انتشار کی ایسی فضا قائم تھی کہ برسوں یکجائی کی کاوشوں میں گزر گئے، جس کے بعد وہ لوگ ہی باقی نہ رہے جو اس تاریخ کے محافظ و امین ہو سکتے تھے۔ صوفی عبد اللہ جو جماعت مجاہدین کے ایک عظیم کارکن تھے، ان کی روایت