کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 655
رکھو نہ اب اگلی صحبتوں کی امید وہ وقت گئے اب اور موسم آیا‘‘[1]
ان اصحابِ ثلاثہ بالخصوص مولانا رحیم آبادی کی مساعیِ حسنہ نے اہلِ حدیث کانفرنس کا پیغام ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچا دیا۔ مولانا کی وفات کے چند ماہ بعد مدراس کے مقام پر اہلِ حدیث کانفرنس کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جلسے کی روداد میں لکھا ہے:
’’تلاوت کے بعد برخوردار عبد العزیز ولد محمد اسحاق صاحب مدراسی طال عمرہ نے چند اشعار پڑھے، جن میں تین اشعار ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :
شکرِ خدا جمع ہیں ہندوستان والے علمائے خیرِ امت شیریں زبان والے
جن کے مشاہدہ کو آنکھیں ترس رہی تھیں لو دیکھ لو عزیزو یہ عزّ و شان والے
کیا خوب ہوتا وہ بھی گر آج زندہ ہوتے عبد العزیز نامی حسن البیان والے
تیسرے شعر نے حاضرین پر عموماً اور مولانا مرحوم کے وابستگان پر خصوصاً جادو کا اثر کیا۔ دیر تک روتے رہے۔ إنا للّٰه ، و رحمہ اللّٰه و إیانا‘‘[2]
جماعتِ مجاہدین سے انسلاک:
انگریزی استعمار کے خلاف جہادی سر گرمیوں کا آغاز سیّد احمد شہید اور ان کے عالی مرتبت خلفا مولانا عبد الحی بڈہانوی و شاہ محمد اسماعیل شہید نے کیا۔ ۱۸۳۱ء میں بالا کوٹ کے مقام پر انگریزوں اور سکھوں کی مشترکہ قوت کے بالمقابل سیّد احمد و شاہ اسماعیل نے شہادت پائی۔ مولانا عبد الحی کی وفات اس سے قبل ہو چکی تھی۔ مولانا ولایت علی صادق پوری، سیّد احمد شہید کے خلیفہ اور سچے جانشین تھے۔ مولانا ولایت علی نے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے پورے خانوادے اور اقرباء واعزہ کو جماعتِ مجاہدین سے منسلک کر دیا، جس کے بعد اس خانوادے نے تاریخِ عزیمت میں انمٹ نقوش ثبت کر دیے جو ہماری گذشتہ تاریخ کا روشن باب ہیں ۔ تحریک کے بیک وقت دو امراء ہوتے، ایک میدانِ کارزار میں اور دوسرا امیر اندرونِ ہند۔ اندرونِ ہند امیرِ جماعت کی ذمے داری میدانِ کارزار کے لیے ہر ممکن معاونت کی فراہمی تھا۔
[1] بحوالہ حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۱۵۶، ۱۶۲)
[2] اہلِ حدیث کانفرنس دہلی کی سالانہ روداد (ص: ۲)