کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 654
کہ اب ان کے راضی ہونے کی کوئی صورت نہ ہوگی، مگر جونہی میں یہ شعر پڑھ دیتا: عاشقاں از ہیبت تیغ تو سر پیچیدہ اند جامی بیچارہ را چوں دیگراں پنداشتی[1] فوراً سارا غیظ و غضب شفقت میں بدل جاتا۔ ’’پنجاب کو فخر ہے کہ مولانا موصوف پنجاب کے شاگردِ رشید تھے۔ پنجاب سے آپ نے کیا حاصل کیا؟ اس کی تفصیل لطف انگیز ہے۔ امرتسر کی طرف پہلے سفر کے دوران میں ایک روز ہم چند پنجابی دفتر اہلِ حدیث امرتسر میں بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ہماری پنجابی زبان کا ایک فقرہ آپ کو پسند آیا جس کے الفاظ تھے ’’تسیں دسو‘‘ یعنی آپ ہی بتائیے۔ یہ فقرہ آپ نے کئی دنوں تک استعمال کیا، چنانچہ جب کوئی پنجابی آتا تو آپ فرماتے: تسیں دسو۔ مگر جب دوسرے تیسرے سال پھر تشریف لاتے تو فرماتے: میرا سبق کیا تھا؟ ہم گستاخانہ الفاظ میں عرض کرتے کہ ’’جناب ایسا بھی کوئی طالب علم ہے جو ایک چھوٹا سا فقرہ بھی کئی سال تک زبانی نہ یاد کر سکے۔‘‘ جواب میں فرماتے کہ ’’بھائی میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، اس لیے میرے حافظہ میں کمی آگئی ہے معاف فرمائیے! ’’آہ ! وہ لطفِ صحبت کہاں جو کبھی آرہ میں حاصل ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ مولانا مرحوم مولوی محمد ادریس صاحب کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ میں بھی حاضرِ خدمت تھا۔ اسی اثناء میں مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری تشریف لے آئے، اس پر مولانا مرحوم رحیم آبادی نے خوش مذاقی سے فرمایا کہ آپ حافظ عبد اللہ صاحب ہیں ۔ حافظ صاحب نے فرمایا : اَلْخَبَرُ یَحْتَمِلُ الصِّدْقَ وَالْکَذِبَ! [2] ان صحبتوں کو جتنا یاد کیا جائے اتنا ہی صدمہ ہوتا ہے اس لیے میں مولانا حالی مرحوم کی ایک رباعی پر ان صحبتوں کا ذکر ختم کرتا ہوں حالی مرحوم فرماتے ہیں : حالیؔ کو جو کل افسردہ خاطر پایا پوچھا باعث تو رو کے فرمایا
[1] عاشق لوگ تیری تیغ کی ہیبت سے سرخم نہیں کرتے۔ مگر جامی بے چارے کو تم نے کیوں کر ان عاشقوں جیسا سمجھ لیا ۔۔۔؟! [2] ’’یعنی یہ خبر ہے اور خبر میں صدق و کذب دونوں ہی کا احتمال ہوتاہے!!‘‘