کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 653
مولد ہے اور آیتِ کریمہ: {إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ } کے معنی میں ایک معنی یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دی گئی ہے کہ ہجرت کے بعد خدا آپ کو آپ کے مولد مکہ شریف میں بعزت و آبرو واپس لائے گا اور وہاں پہنچ کر نمایاں فوقیت حاصل ہوگی جو دین کی تکمیل کے لیے موثر اور مفید ہوگی۔ خدا کرے اہلِ حدیث کانفرنس کا یہ جلسہ اپنے مولد میں اس آیت کا مصداق ثابت ہو۔ ’’میں اس وقت چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھ رہا ہوں ، مگر مجھے کانفرنس کے سالارِ قافلہ مولانا رحیم آبادی نظر نہیں آتے تو میری زبان پر بے ساختہ یہ شعر جاری ہوجاتا ہے: آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں آج وہ خانہ خراب ہم کو بہت یاد آیا ’’مولانا مرحوم کانفرنس اہلِ حدیث کے جلسوں میں کلکتہ تک تو شریک رہے، مگر اجلاسِ کلکتہ کے بعد اس کے جلسہ سے پہلے ہی حکمِ الٰہی کو لبیک کہہ چکے تھے، اس لیے مدراس کے جلسہ میں مولوی محمد حسن کے صاحبزادے نے جو نظم پڑھی اس میں ایک مصرع یہ بھی تھا ع چہ خوش بودے اگر عبد العزیز ایں جلوہ می دیدے ’’اس مصرع نے حاضرینِ جلسہ پر عموماً اور ہم دونوں (ابو الوفا اور ابراہیم) پر خصوصاً وہی اثر کیا جو امرؤ القیس پر ہوا تھا جس کا ذکر اس نے اس شعر میں کیا ہے: کَأَنيْ غَدَاۃَ الْبَینِ یَوْمَ تَحَمَّلُوْا لَدیٰ سَمُراتِ الْحَيْ نَاقِفُ حَنْظَلٖ ’’بھائی ابراہیم کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور خود رفتگی کی حالت میں گویا میری زبان پر شعر جاری ہو گیا: مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں دل میں آتا ہے لگا دیں آگ میخانے کو ہم مولانا رحیم آبادی کی بابت ہم زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے، ہاں اتنا کہتے ہیں کہ آپ دوسرے مستفیضوں کے لیے تو عالم، رہنما اور مرشد کامل ہوں گے، مگر ہم دونوں ابو الوفاء اور ابراہیم کے لیے بمنزلہ شفیق والد تھے۔ جھڑکتے، ڈانٹتے اور ایسے خفا ہوتے کہ نا واقف سمجھتا