کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 652
مرحوم سابق تعلقہ دار حیدر آباد اور مولانا ضمیر مرزا مدظلہ وغیرہ اعیان اہلِ حدیث کانفرنس کے جلسوں میں برابر شریک ہوتے رہے۔
’’کانفرنس کے صدر مولانا احمد حسن صاحب قرار پائے اور ناظم یعنی سکرٹری یہی خاکسار رہا۔ دفتری انتظام و صیغۂ مالیات کے اہتمام کے لیے حافظ حمید اللہ صاحب سکرٹری اور فنانشل سکرٹری مقرر ہوئے۔ آپ نے بڑی محنت اور ہمدردی سے اس کام کو سر انجام دیا ہے۔ خدا ان کو جزائے خیر دے۔
’’اس کے بعد اہلِ دہلی نے کانفرنس کا ایک عام جلسہ تجویز کیا جو بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ اسی جلسہ میں آئندہ سال کے جلسہ کے لیے امرتسر کی طرف سے دعوت دی گئی۔ امرتسر کا جلسہ بھی بڑی شان و شوکت سے ہوا، اس کے بعد احبابِ پشاور کی دعوت پر وہاں بھی جلسہ منعقد ہوا جس میں بڑی چہل پہل نظر آتی تھی۔ جلسہ پشاور کی خصوصیت یہ ہے کہ سرحدی پٹھانوں کی خاطر مولانا عبد التواب غزنوی نے پشتو زبان میں تقریر کی۔ اس جلسہ پشاور کے صدر ارباب عبد الرؤف خاں سلمہ اللہ تھے۔ آپ نے صدارت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی اور استقلال سے ادا کیے۔ اس کے بعد کانفرنس کے سالانہ جلسے پنجاب، گجرانوالہ اور ملتان، (یوپی) میں علی گڑھ، بنارس، آگرہ، کانپور اور مؤ ناتھ بھنجن اعظم گڑھ، (بنگال میں ) کلکتہ اور صوبہ مدراس میں شہر مدراس ایسے مشہور مقامات پر ہوتے رہے۔
’’گزشتہ سال اپریل ۳۹ء میں کانفرنس کا جلسہ لوٹ کر پھر پنجاب میں آ گیا، یعنی فتح گڑھ چوڑیاں ضلع گورداس پور میں منعقد ہوا۔ دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں زیادہ جلسے منعقد ہوئے۔
’’ہر صوبہ کے دور دراز مقامات میں جلسوں کا انعقاد کانفرنس کی قبولیتِ عامہ کا ثبوت ہے، مگر زمانہ کا اثر ہر چیز پر ہوتا ہے۔ کانفرنس ہذا بھی زمانہ کے اثر سے محفوط نہ رہ سکی، اس میں بھی کمزوری آگئی، تاہم خدا کا شکر ہے کہ بعض دیگر تحریکات کی طرح مری نہیں بلکہ زندہ ہے۔ آرہ میں اس کا جلسہ خدا کرے اس کی تقویت کا باعث ہو، کیونکہ آرہ اس کا