کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 651
صاحب رئیس لدھیانہ زندہ تھے، انھیں کے یہاں قیام ہوا۔ انھوں نے اس وقت بھی اعانت کی اور آیندہ کے لیے بھی وعدہ فرمایا۔ وہاں سے چل کر امرتسر میں نزول ہوا۔ مولانا ابراہیم صاحب اپنی والدہ مکرمہ کی علالت کی خبر سن کر بنارس سے سیدھے سیالکوٹ چلے گئے۔ امرتسر ان دنوں خانہ جنگی کا مرکز بن رہا تھا، مولانا رحیم آبادی کی حسنِ تدبیر نے اس جلتی آگ پر پانی ڈال کر اسے ایسا ٹھنڈا کیا کہ فریقین کے تمام اعیان نے مولانا رحیم آبادی کے ہمراہ بتاریخ ۱۴ فروری ۱۹۱۱ء حافظ عنایت اللہ مرحوم مختار عدالت کے مکان پر دعوت کھائی۔ مجلسِ دعوت میں مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا احمد اللہ امرتسری اور یہ خاکسار مع دیگر اعیان و افراد کے شریک تھے ۔غفر اللّٰه لہم۔ اسی سفر میں وفد لاہور میں بھی پہنچا اور وہاں کے احباب نے بھی محمڈن ہال میں جلسہ کرایا جہاں ارکانِ وفد نے اپنا مقصد بیان کیا۔ اس پر احبابِ لاہور نے شرکت اور امداد کا وعدہ فرمایا۔ یہ وفد لاہور سے امرتسر واپس آیا اور امرتسر سے فارغ ہو کر سیدھا دہلی پہنچا۔ دہلی میں ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب کوئلے والے زندہ تھے، انھوں نے اپنے زینت محل میں وفد کو ٹھہرایا اور جلسہ کا انتظام کیا۔ موصوف کے ساتھ ان کے بھائی حافظ محمد حسن نے جس اخلاص سے وفد کی خدمت کی، ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے، سوائے اس کے کہ ان کے حق میں دعائے خیر کریں ۔ جزاھم اللّٰه خیراً۔ ’’جلسہ آرہ میں یہ طے ہو گیا تھا کہ کانفرنس کا صدر دفتر دہلی میں رہے، اس لیے دہلی کے احباب نے جب شرکت کا وعدہ کیا تو ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ دہلی اپنی خصوصیت کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ اسی کو کانفرنس کا مرکز بنایا جائے، اس تجویز کو احباب کرام نے منظور فرمایا۔ اس وقت بھی دہلی جماعت اہلِ حدیث میں اختلاف اور تفرقہ تھا، مگر اہلِ حدیث کانفرنس کی تحریک ایسی مقبول ہوئی کہ کسی نے اس میں شریک ہونے سے انکار نہیں کیا، بلکہ مولوی عبد الوہاب صاحب صدر بازار والے، حافظ حمید اللہ صاحب پیچک والے، مولوی حکیم حافظ عبد الوہاب صاحب، مولوی ابو الحسن صاحب نبیرہ حضرت میاں صاحب مرحوم دہلوی، حاجی عبد الغفار صاحب مرحوم اور مولوی احمد حسن