کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 650
آخر خدا خدا کرکے راج شاہی میں حافظ محمد امین صاحب کے مکان پر پہنچے۔ حافظ صاحب نے مہمان نوازی کا پورا حق ادا کیا، یعنی ہر طرح سے آرام پہنچایا اور جلسہ کا انتظام بھی کیا۔ بنگالی مخلصین گرد و نواح سے بکثرت شریکِ جلسہ ہوئے۔ ہم نے ان کے سامنے اپنے سفر کا مقصد بیان کیا، مگر مشکل یہ تھی کہ بقول: زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم ’’بنگالی خصوصاً دیہاتی لوگ ہماری اردو زبان نہیں سمجھتے تھے، صرف اخلاص و محبت سے محوِ حیرت ہو کر سنتے رہے۔ آخر آواز آئی: ہم نے مولاناؤں کی تقریر کا مطلب نہیں سمجھا۔ ایک بنگالی دوست نے، جس کا نام میں بھول گیا اور جو اردو زبان سمجھتے تھے، اٹھ کر ہماری تقریروں کو بنگلہ زبان میں ادا کر دیا، اسے سن کر حاضرین بہت خوش ہوئے اور حسبِ توفیق چندہ دے کر ہمدردی اور شرکت کا وعدہ کیا۔ ’’ہم چند روز راج شاہی رہ کر کلکتہ کی طرف روانہ ہوگئے اور کلکتہ میں اس وقت پہنچے جب جمعہ کا خطبہ ہو رہا تھا۔ ہمارے پہنچنے کی اطلاع کسی کو نہ تھی، ہاں اخبار اہلِ حدیث کے ذریعہ خبر پہنچ چکی تھی کہ وفد اہلِ حدیث بنگال میں دورہ کر رہا ہے اور کلکتہ بھی پہنچے گا۔ نماز کا سلام پھیرتے ہی میں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ مولانا عبد العزیز صاحب اور دوسرے ممبرانِ وفد آگئے ہیں ۔ یہ سن کر مخلصین مسجد میں بیٹھے رہے اور ممبرانِ وفد سے ملاقات اور گفتگو کرتے رہے۔ ’’اس کے بعد جلسے شروع ہوئے۔ کلکتہ میں مسلمان، ہندو ہوں یا بنگالی، عام طور پر اردو زبان سمجھ لیتے ہیں اس لیے ہمیں اپنے ما فی الضمیر کو سمجھانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ چند روز کلکتہ میں ٹھہر کر ہم نے اپنا مقصد بیان کیا۔ احباب نے نہ صرف ہمارے مقصد سے اظہارِ ہمدردی کیا بلکہ چندہ بھی دیا۔ اس کے بعد کلکتہ سے روانہ ہو کر ہم بنارس پہنچے، وہاں بھی احباب سے اسی طرح تبادلۂ خیال کیا اور جلسوں میں اپنا مقصد ظاہر کر کے امداد حاصل کی۔ احباب نے مزید اعانت کا وعدہ کیا۔ ’’بنارس سے چل کر پنجاب کا رخ کیا۔ پہلا قدم لدھیانہ ہوا۔ ان دنوں مولوی محمد حسن