کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 649
سے نکلتے وقت ریل گاڑی آہستہ آہستہ چلتی ہے، یہاں تک کہ جب محمد پور کواری ضلع دربھنگہ میں مذاکرہ علمیہ کا جلسہ منعقد ہوا، اس میں کانفرنس کو چلانے کے لیے مشورہ ہوا، جس میں قرار پایا کہ اہلِ حدیث کانفرنس کی گاڑی کو تیز چلانے کے لیے ایک وفد ملک کا دورہ کرے جس کے تین ممبر منتخب ہوئے۔ مولانا رحیم آبادی کی معیت میں ہم دونوں خادم ( ابو الوفا اور ابراہیم) اور مولانا مرحوم کے ایک دو خادم تھے۔ سب سے پہلے حافظ محمد امین دہلوی نے جو ان دنوں راجشاہی میں تجارت کرتے تھے اور جلسہ کواری میں شریک ہوئے تھے۔ راج شاہی (ملک بنگال) میں پہنچنے کی دعوت دی۔ یہ قافلہ مع سالارِ قافلہ کے راج شاہی تک جس تکلیف اور مشقت سے پہنچا وہ نا قابلِ ذکر ہے۔
’’مختصر یہ کہ اس قسم کا تکلیف دہ سفر میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کیا۔ قریباً بتیس میل کا فاصلہ بیل گاڑیوں کے ذریعہ طے کیا۔ ایک گاڑی پر قافلہ کے سالار دوسری پر ان کے خواص و عوام خادم اور تیسری پر ہم دونوں بھائی (ابو الوفاء اور ابراہیم) سوار تھے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ گاڑی ایسی عمدہ تھی کہ اس میں ہم دونوں یکجہت ہو کر نہیں لیٹ سکتے تھے۔ اس لیے ایک کا سر دوسرے کے پیروں کی طرف ہوتا تھا اور اس پر طرہ یہ کہ سفر رات کے وقت کیا گیا۔ ہم نے تو اپنی رات خیر و عافیت سے گزاری، مگر لطیفہ خاص قابلِ ذکر یہ ہوا کہ ہم دونوں کے لوٹے جو وضو کے لیے تھے اور گاڑی کے پیچھے لٹکائے گئے تھے وہ آپس میں بری طرح ٹکراتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صبح کے وقت ایک ان میں نیم مردہ تھا اور دوسرا تندرست، کیونکہ وہ تانبے کا تھا اور نیم مردہ ٹین کا۔ راستہ میں رات کے وقت جب میں بیدار ہوتا تو چاروں طرف گھپ اندھیرا دیکھ کر امرؤالقیس کا یہ شعر پڑھتا:
أَلَا أَیُّھَا الْلَّیْلُ الطویلُ ألا انْجَلِيْ بِصُبْحٍ، وما الإصباحُ منک بِأمْثَلِ
اور کبھی کبھی یہ اردو شعر بھی پڑھتا:
طنابیں کھینچ دے یا رب زمین کوئے جاناں کی کہ میں ہوں ناتواں اور دن ہے اور آخر دور منزل ہے