کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 648
’’ کانفرنس کی تاریخ کے تذکرہ میں اس سے مفر نا ممکن ہے کہ جس طرح ملک میں عمل بالحدیث کا اجرا جناب شہید دہلوی سے ہوا، اسی طرح اہلِ حدیث کانفرنس کا انعقاد ہمارے اسماعیل ثانی مولانا عبد العزیز مرحوم رحیم آبادی کی ذاتِ گرامی سے ہوا۔ مولانا رحیم آبادی کو دو نوجوان ہمرکاب ایسے ملے جو جوان ہونے کے علاوہ جواں ہمت بھی تھے بلکہ ہیں ۔ ہماری مراد مولانا ابو الوفا ثناء اللہ اور مولانا ابراہیم ہیں ۔ ان تینوں اصحاب نے بنگال سے پنجاب تک سفر کر کے دہلی میں کانفرنس کا مرکز بنایا۔
’’دہلی کو جو برتری شہادت پناہ اسماعیل شہید اور فضیلت مآب میاں صاحب کی وجہ سے حاصل تھی، وہی بزرگی اس کو آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کا صدر مقام ہونے سے نصیب ہوئی، اور اسی طرح کی فضیلت دہلی کو ان علمائے اہلِ حدیث کی برکت سے ہے جو یہاں کسی نہ کسی سلسلہ میں قیام فرما ہیں ۔
’’لیکن کانفرنس کی حالت کیا ہے ؟ مولانا رحیم آبادی کے انتقال سے جو زوال شروع ہوا تو دن بدن بد سے بدتر ہوتا گیا اور یہ حقیقت عالم یا عامی سے پوشیدہ نہیں .....۔ ‘‘[1]
اس لیے اس حقیقت کے اظہار میں کیا شبہہ ہے کہ ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے حقیقی بانی مولانا مرحوم ہی تھے اور کانفرنس کا وجود مولانا ہی کی عظمت و عزیمت کا حاصل تھا۔
مولانا کی زیرِ قیادت تنظیم سازی کے لیے جو کوششیں کی گئیں ، ان کی روداد بیان کرتے ہوئے مولانا ثناء اللہ امرتسری اہلِ حدیث کانفرنس کے سالانہ جلسہ منعقدہ آرہ میں فرماتے ہیں :
’’اخبار اہلِ حدیث میں تحریک ہوئی تھی کہ ایک انجمن اہلِ حدیث کانفرنس کے نام سے قائم کی جائے۔ آخر ہوتے ہوتے جلسہ مذاکرہ علمیہ آرہ میں جو ماہِ دسمبر ۱۹۰۶ء میں منعقد ہوا، علمائے اہلِ حدیث کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس تجویز کو منظور فرمایا۔ کانفرنس کے صدر حافظ صاحب غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ تجویز کیے گئے اور ناظم (سیکرٹری) یہ خاکسار مقرر ہوا۔ اس کے بعد کانفرنس کی رفتار اسی طرح دھیمی رہی جس طرح ریلوے اسٹیشن
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ مارچ ۱۹۳۹ء