کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 647
’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا رحیم آبادی سے بڑھ کر اس وقت جماعتِ اہلِ حدیث کا کوئی عالم تنظیم سازی کے لیے متحرک و فعال نہیں تھا۔ بہار و بنگال کے حلقوں میں مولانا رحیم آبادی کو امیر جماعت کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ مولانا عبد الرحیم صادق پوری کے ایامِ اسیری میں وہ اندرونِ ہند جماعتِ مجاہدین کے امیر بھی تھے، لیکن یہ مولانا کا کمال ایثار تھا کہ انھوں نے ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے لیے علامہ حافظ عبد اللہ غازی پوری کو صدر اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کو جنرل سکرٹری نامزد کیا، وہ چاہتے تو بہ آسانی صدر منتخب ہو سکتے تھے، کیوں کہ ان کی تنظیمی کاوشوں کا تسلسل پہلے سے قائم تھا،تاہم اکابر زعماء نے انھیں نائب صدر کا عہدہ تفویض کیا۔ کمالِ ایثار کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہو گیا، بلکہ جماعت کی تنظیم سازی کے لیے جس قدر خلوص کے ساتھ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک جدوجہد کرتے رہے وہ جماعتِ اہلِ حدیث کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ’’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘‘ کی تنظیم سازی کے لیے تین علماء (مولانا عبد العزیز (امیرِ سفر)، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا ابراہیم میرؔ سیالکوٹی) منتخب کیے گئے جنھوں نے پورے ہندوستان میں سفر کی صعوبتوں کو جھیلا اور تنظیم سازی کی غیر معمولی مثال پیش کی۔ مولانا رحیم آبادی جب تک زندہ رہے، ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کے ہر سالانہ جلسے میں شریک ہوتے رہے۔ ان کی موجودگی کانفرنس کے لیے بمنزلہ شفیق باپ کی حیثیت رکھتی تھی۔ ان کی وفات کے بعد ۱۹۱۸ء میں مدراس کے مقام پر جب اہلِ حدیث کانفرنس کا سالانہ جلسہ ہوا تو اس میں مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنے دکھ کا اظہار ان پُر درد الفاظ کے ساتھ کیا: ’’اس کانفرنس کا اصل صدر کون تھا۔ آہ! آج ہم کو اس سے جدائی ہے۔ آہ! میری آنکھیں اس کے دیکھنے کو ترس رہی ہیں ۔ آہ! بزرگ باپ کی طرح اب ہم کو کون ڈانٹا کرے گا۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون‘‘[1] مولانا امام خاں نوشہروی اپنے مضمون ’’دہلی کی گذشتہ اہلِ حدیث تاریخ، آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس اور اعیانِ اہلِ حدیث دہلی کا فرض‘‘ میں لکھتے ہیں :
[1] اہلِ حدیث کانفرنس دہلی کی سالانہ روداد، ۱۹۱۸ء (ص: ۱۰)