کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 646
مند لوگ اپنے بچے بچیوں کی شادی بیاہ کا معاملہ بھی سامنے لاتے اور برادری کا لحاظ کیے بغیر مولانا مرحوم جس کی نسبت جس سے طے کر دیتے، لوگ امیر کا حکم سمجھ کر عمل پیرا ہوتے۔‘‘[1] بنگال میں مرشد آباد مناظرے کے بعد ہی سے مولانا ہر دلعزیز تھے۔ دیناج پور میں اہلِ حدیث کی بڑی تعداد آباد تھی۔ مولانا عبد الرحیم سالکؔ کوڑوی دیناج پوری، مولانا رحیم آبادی کے تلمیذِ رشید تھے اور مولانا سے انھیں اس قدر عقیدت تھی کہ اپنے خاندان کی ایک عفیفہ کی شادی بھی انھوں نے مولانا سے کروا دی تھی، جس کے بعد مولانا کا بالخصوص بنگال جانا زیادہ ہوگیا تھا۔ مولانا کی بنگال آمد و رفت سے بھی مسلک اہلِ حدیث کو بنگال میں خاصافروغ حاصل ہوا۔ مولانا کا یہ تنظیمی سلسلہ کس درجہ مؤثر تھا؟ اس کا اندازہ ذیل کے ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا ایک بار بشن پور تشریف لے گئے، وہاں حافظ محمد حنیف صاحب کی بہن کی شادی کا معاملہ پیش ہوا۔ مولانا نے عبد السبحان صاحب ساکن کنگٹی سے رشتہ کر دینے کے لیے فرمایا اور چلے گئے۔ اس وقت بات اسی حد تک رہ گئی۔ جب دستور کے مطابق تحقیقات کا مرحلہ آیا تو پتا چلا کہ عبد السبحان صاحب نابینا ہیں ۔ لڑکی کے خاندان والوں بالخصوص خواتین کی جانب سے اس رشتے کی سخت مخالفت ہوئی۔ لیکن اطاعتِ امیر کا جذبہ اس درجہ شدید اور مؤثر تھا کہ حافظ محمد حنیف صاحب نے اپنی ہمشیرہ کی شادی عبد السبحان صاحب سے کر دی۔ عبد السبحان صاحب نے مولانا ہی کی تبلیغ سے مسلک اہلِ حدیث قبول کیا تھا۔ بڑے زاہد اور متبع سنت تھے۔ اللہ نے اس عفیفہ کے بطن سے انھیں ایک نیک سیرت بیٹا عطا کیا جن کا نام محمد سلیمان تھا۔ بڑے ہوکر یہ قرآن کریم کے حافظ بنے اور خدمتِ قرآن کے لیے ان کی زندگی وقف رہی۔ بلا معاوضہ بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔[2] آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس: مولانا کی جماعتی تنظیم گو کہ قائم ہو چکی تھی، لیکن اس کا حلقۂ اثر بہار وبنگال کے چند اضلاع تک محدود تھا۔ مذاکرئہ علمیہ کے جلسے میں کل ہند تنظیم سازی کا خیال پیش ہوا اور دسمبر ۱۹۰۶ء میں
[1] حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۸۹، ۹۰) [2] حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۸۹، ۹۰)