کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 645
ادریس کی خدمات گراں قدر ہیں ۔ اپنی وفات کے وقت وہ مدرسہ کے نائب مہتمم تھے۔ ان کی وفات کے بعد افسوس کہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ اپنی سابق حالت میں قائم نہ رہ سکا۔ علامہ رحیم آبادی کو دربھنگہ میں ’’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘‘ قائم کرنا پڑا اور آرہ کی یہ بساطِ علمی الٹ گئی۔
مولانا رحیم آبادی کا خاص حلقۂ اثر شمالی بہار اور مغربی بنگال کے اضلاع تھے۔ مظفر پور، دربھنگہ، چمپارن اور ترہت کے علاقوں کے مستقل دورے کرتے۔ ہر دیہات، ہر گاؤں میں ایک سردار مقرر کیا اور چند گاؤں کے لیے ایک ذیلی مرکز بنایا جو اپنے ماتحت علاقات کی نگرانی کرتا تھا۔ حالات کا جائزہ لینے کے لیے خود مولانا سال میں ایک یا دو مرتبہ تشریف لے جاتے اور وہاں کی تبلیغی و تنظیمی کارکردگی کا جائزہ لیتے۔مولانا فضل الرحمن سلفی لکھتے ہیں :
’’ہر بستی میں ایک سردار مقرر کر رکھا تھا جن کے ذریعے ممکن حد تک احکامِ اسلامی کی تعمیل کرائی جاتی تھی۔ مثلاً بخشی جی چپریا میں ، منشی اصغر حسین صاحب پیغمبر پور میں ، مولوی محمد صالح صاحب، بعدہ محمد یحییٰ صاحب بندھولی میں ، منشی انور صاحب مختار سوگونہ میں ، حافظ محمد نواب صاحب دیودھا اور حافظ محمد یحییٰ صاحب رکسیا میں ، مولوی لیاقت حسین صاحب اموا اور میاں افضل حسین صاحب و محی الدین صاحب مولا نگر میں ، اس کے علاوہ ان بستیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر چند بستیوں کے لیے ایک ذیلی مرکز بنایا چنانچہ اموا پیغمبر پور اپنے اپنے علاقہ کا سنٹر تھا تو بشن پور علاقہ موتی پور کا، پھر قاضی محمد پور پارو تھانہ اور کنگٹی مہوا تھانہ کے علاقہ کا اور ہر اطراف میں یہی حال تھا۔
’’سنٹر کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ اپنے ما تحت مواضعات کی خبر گیری کرے اور ہرکس و ناکس کے حالات سے با خبر رہے۔ مولانا مرحوم خود سال میں دو تین بار یا کم از کم ایک بار ضرور دورہ فرماتے تو سنٹر میں پہنچ کر علاقہ کے حالات کا جائزہ لیتے، پھر جیسی ضرورت محسوس ہوتی کبھی تنہا اور کبھی علاقہ کے سردار یا مخصوص لوگوں کے ساتھ اطراف کی بستیوں کا دورہ فرماتے۔ اس موقع پر لوگ اپنے معاملات اور اختلافات کو مولانا کے سامنے پیش کرتے، کسی کی باز پرس ہوتی، کسی کی تنبیہ ہوتی اور آپس کی شکر رنجیوں کو مٹایا جاتا۔ انھیں مواقع پر ارادت