کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 644
۱۳۱۸ھ میں مولانا ابراہیم نے حجازِ مقدس کی جانب مستقل ہجرت کی تو علامہ عبد العزیز رحیم آبادی (جو مولانا آروی کی حقیقی بھانجی کے شوہر تھے) کو مدرسے کا نگراں مقرر کر گئے۔ اخلاص و للہیت کی دولت انھیں مولانا آروی سے تربیت میں ملی تھی۔ مولانا رحیم آبادی اپنے عملی کاموں سے مولانا آروی کے سچے جانشین ثابت ہوئے، جس کا اعتراف اس دور میں تمام اکابر اہلِ علم کو تھا۔
۱۳۱۹ھ بمطابق ۱۹۰۰ء کو مولانا ابراہیم کی وفات ہوئی۔ اس خبرِ وحشت اثر سے نہ صرف آرہ شہر میں مولانا کے حلقۂ ارادت، بلکہ پورے ہندوستان کے اہلِ حدیث حلقوں میں بالعموم حسرت و یاس کی فضا چھا گئی۔ ۱۱ مئی ۱۹۰۲ء کو مولانا ابراہیم کی جانشینی کے حوالے سے آرہ میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا، جس میں اطراف و اکناف کے کبار علماء شریک ہوئے۔ علامہ رحیم آبادی نے تحریک پیش کی کہ مولانا ابراہیم کے بھائی مولانا ادریس کو مولانا ابراہیم کا جانشین مقرر کیا جائے اور ان کے زیر سرپرستی مدرسے کے امور انجام دیے جائیں ۔ اس موقع پر مولانا ادریس نے جو موقف اختیار کیا، وہ اخلاص و ایثار کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مولانا محمد ہادی لکھتے ہیں :
’’واہ رے مولوی ادریس صاحب کی علو ہمتی اور بھائی کے عملی کاموں کی قدر دانی! گو آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور رنج و الم سے باتیں کرنی دشوار تھیں ، تاہم ہچکیاں لے لے کر رقت بھرے لفظوں سے یہ فرمایا: بھائی مرحوم اپنے جیتے جی زندگی میں سفرِ حجاز کے قبل جناب مولانا حافظ عبد العزیز صاحب اپنے حقیقی بھانجی داماد کو اپنا جانشین بنا گئے ہیں اور اس میں یہ قید نہیں کہ اتنے دنوں کے لیے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیشہ کے لیے، اور مولانا موصوف دو برس سے اس خدمت کو بحسن و خوبی انجام دے بھی رہے ہیں ۔ پس میری سعادت اور میرے غم غلط کرنے کی شکل اس سے بہتر نہیں کہ ان کے جانشین بنائے ہوئے کی پیروی کرتا رہوں ۔‘‘[1]
مولانا ادریس نے جس طرح ایثار سے کام لیا، وہ ان کے کرادر کی عظمت کی روشن مثال ہے۔ خود پوری زندگی مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے معاون رہے۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کے قیام و بقا میں مولانا
[1] ماہنامہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ (کلکتہ) ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ