کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 643
از حد عقیدت مند تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔ ایک بار جب مولانا دہلی میں قیام فرما تھے تو شیخ صاحبان کی بہن کو کچھ ایسی تکلیف تھی جس سے شبہہ تھا کہ یہ جناتی حرکت ہے۔ مولانا کو جب پتا چلا تو انھوں نے ایک تعویذ دے دیا۔ باذن اللہ مریضہ صحت یاب ہوگئیں ۔ لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد شیخ صاحبان کا بھانجہ لا پتا ہو گیا۔ بہت تلاش کروایا گیا، مگر ملنے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی۔ کچھ عرصہ بعد بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) کے علاقے پاربتی پور ریلوے اسٹیشن (ضلع دیناج پور) میں کسی نے لڑکے کو پہچانا اور شیخ صاحبان تک اطلاع پہنچوائی۔ لڑکے کے ملنے کی خوشی میں یہ لوگ تقریب کے انعقاد کا پروگرام بنا رہے تھے کہ مولانا رحیم آبادی نے مشورہ دیا کہ شکرانے کے طور پر ایک دینی درس گاہ کھولی جائے۔ یہ مشورہ شیخ صاحبان کو پسند آیا، چنانچہ ان کے نام کی مناسبت سے مدرسے کا نام ’’دار الحدیث رحمانیہ‘‘ رکھا گیا۔ تقسیمِ ہند پر جماعت اہلِ حدیث کی اس عظیم الشان دینی درس گاہ پر یک قلم زوال آ گیا۔ اس کی تمام تر رعنائیاں ماند پڑ گئیں ۔ صبحِ آزادی آئینہ فلک سے رونما ہوئی، مگر اس طرح کہ ارضِ ہند مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو گیا۔ کتنے ہی فلک بوس آشیانے زمین سے جا لگے۔ کتنے ہی علمی گہوارے تباہ ہو گئے۔ ’’دار الحدیث رحمانیہ‘‘ بھی اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ سکا اور بالآخر قصہ پارینہ بن گیا۔ تاہم ۱۹۶۲ء میں کراچی میں سفید مسجد (سولجر بازار) میں اس کی تجدیدِ ثانی ہوئی، جس کے محرک مولانا عبد الغفار حسن بنے۔ الحمد للہ یہ مدرسہ آج بھی کراچی میں دینی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے بانیانِ کرام اور محرکین و منتظمین پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ آمین جماعتی تنظیم: مولانا ابو محمد ابراہیم آروی اپنے دور کے بڑے عبقری عالم تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے جماعتِ اہلِ حدیث میں ایک غیر معمولی دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی جسے مرکزیت حاصل ہوئی۔ یہیں مذاکرہ علمیہ کے جلسے ہوتے، جہاں ہندوستان بھر سے اکابر علماء شریک ہوتے۔ اتفاق سے ایک جلسے میں تنظیمی امیر سے متعلق مسئلہ چھیڑا گیا۔ آخر طے پایا کہ ایک سردارِ جماعت کا انتخاب ہونا چاہیے۔ مولانا ابراہیم آروی پہلے جماعتی امیر منتخب ہوئے۔