کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 642
{يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا} چاہتے ہیں کہ ان افعال پر ان کی تعریفوں کے گیت گائے جائیں جو انھوں نے کیے ہی نہ ہوں ۔‘‘ ’’مدرسہ رحمانیہ دہلی جو (اخبار) محمدی کے ناظرین سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ، جس کے علوم کے چشمے ہندوستان بھر کو سیراب کر رہے ہیں ، اس کی نسبت بعض مولویوں کی زبانی سنا اور ان کی تحریریں اخباروں میں پڑھیں کہ اس کی بنا بھی میرے چشم و ابرو کے اشاروں کی ممنون ہے اور میری نوکِ زبان نے اہلِ حدیث حضرات کو یہ نعمت عطا فرما رکھی ہے، لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بھی ’’مفت احسان داشتن‘‘ کا مضمون ہے۔ ہم نے موجودہ مہتمم صاحب مد ظلہ وغیرہ سے دریافت کیا تو ان کی زبانی معلوم ہوا کہ جماعت اہلِ حدیث کے سچے محسن اور بہی خواہ، جس کی زبان و بیان میں قدرت نے سچی تاثیر رکھی تھی، یعنی حضرت مولانا مولوی عبد العزیز صاحب مرحوم رحیم آبادی نے ایک ایسے عظیم الشان مدرسے کی خواہش ظاہر کی تھی، ان کے فرمان کا یہ نتیجہ ہے، اس کی رغبت دلانے والے اس کی تحریک کرنے والے خدا غریق رحمت کرے مولانا مرحوم تھے نہ کہ کوئی اور۔ ہمارا جی نہیں چاہتا تھا کہ اس حقیقت کا بھی اظہار کریں ، لیکن اس وجہ سے کہ ہمارے پیر و مرشد حضرت مولانا رحیم آبادی کو جماعت دعائے خیر میں یاد کرے، میں نے یہ تحریر چھپوا دی ہے۔‘‘ [1] اس بیان کی استنادی حیثیت اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ یہ بیان اس وقت طباعت پذیر ہوا جب کہ مدرسے کے بانی و مہتمم شیخ عطا ء الرحمن بقیدِ حیات تھے۔ ان کی وفات اس بیان کے چند برس بعد یکم جون ۱۹۳۸ء کو ہوئی۔ اس کے قیام کا پس منظر بھی بہت سبق آموز ہے۔ مولانا رحیم آبادی کا دہلی مستقل جانا رہتا تھا۔ شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن کا شمار کبار رؤسائے دہلی میں ہوتا تھا۔ یہ دونوں بھائی مولانا کے
[1] تاریخ و تعارف دار الحدیث رحمانیہ دہلی (ص ۹۶، ۹۷)۔ راقم کی نظر سے اخبار ’’محمدی‘‘ کا مضمون بھی گزر چکا ہے، تاہم اس وقت پیشِ نگاہ نہیں ۔