کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 641
آزادؔ رحمانی، مولانا عبد الرحمن پروازؔ اصلاحی وغیرہم کی تدریسی خدمات سے دار العلوم بہرہ ور ہوا۔
دار العلوم کے فارغین کی بھی بڑی تعداد ہے جنھوں نے تکمیلِ علم کے بعد گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۸ء کو دار العلوم کے پہلے فارغ التحصیل عالم مولانا بشیر الدین دانا پوری تھے۔ اس سال وہ واحد طالبِ علم تھے جنھوں نے سندِ فراغت حاصل کی۔ بعد کے ادوار میں جن مشاہیرِ علم نے یہاں سے تکمیلِ علم کی ان میں مولانا عبید الرحمن عاقلؔ رحمانی، مولانا عین الحق سلفی، ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی، مولانا عمیس اختر سلفی، مولانا فضل الرحمن سلفی، مولانا عبد الخالق جوہرؔ سلفی، ڈاکٹر عبد العزیز سلفی، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (نزیل مکہ مکرمہ)، مولانا خورشید عالم سلفی وغیرہم شامل ہیں ۔۲۰۱۶ء تک اس دار العلوم کے فارغین کی تعداد ۸۹۸ ہو چکی ہے۔ تادمِ تحریر یہ سلسلۂ نشرِ علم جاری ہے۔
7۔مدرسہ دا ر الحدیث رحمانیہ،دہلی:
’’دار الحدیث رحمانیہ‘‘ دہلی، جو اپنے عہد کی ایک عظیم الشان دینی درس گاہ تھی، اس کے محرکِ اوّل بھی علامہ فاضل رحیم آبادی ہی تھے۔ ’’دار الحدیث رحمانیہ‘‘ تاریخِ اہلِ حدیث کی تعلیمی سرگزشت میں ایک غیر معمولی مقام کی حامل درس گاہ رہی ہے۔ اس کے قیام کا فخر، معمولی فخر نہ تھا۔ دہلی کے دو رئیس برادران شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن اس کے بانی تھے۔ تاہم اس مدرسے کے قیام و بنا کی تجویز سب سے پہلے کس نے پیش کی؟ یہ تجویز بھی معمولی نوعیت کی نہیں تھی۔ یہی وجہ رہی کہ بعض لوگوں نے اس کی اوّلین تحریک سے متعلق بے سرو پا دعوے کرنا شروع کر دیے۔ بعض نے اپنے اپنے ممدوحین کی طرف اس کا انتساب کیا۔ مدرسے کی تاریخ میں اس کی خاص اہمیت تھی، اسی لیے اسی عہد میں مدرسے سے منسلک ایک صاحب التفات الرحمن نے ناظمینِ مدرسہ سے دریافت کرکے حقیقتِ حال کا اظہار کیا اور دہلی کے مؤقر جریدے پندرہ روزہ ’’محمدی‘‘ کی ۱۵ جون ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں طبع کروایا۔ لکھتے ہیں :
’’مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کی بنا‘‘
’’اکثر دوستوں کو بعض مولوی صاحبان سے شکایت ہے کہ وہ ہر بھلے کام کی نسبت خواہ مخواہ اپنی طرف کر بیٹھتے ہیں کہ فلاں کام کا بانی میں ہوں ، فلاں تحریک کا محرک میں ہوں ، فلاں مفید اسکیم کا مجوز میں ہوں ، حالانکہ بعد از تلاش وہ اس آیت کے مصداق اترتے ہیں :