کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 639
تعارف کا ذریعہ بن گیا۔ مولانا کا دربھنگہ آنا جانا شروع ہوا۔ محلہ چک زہرہ والوں نے مولانا کے لیے دیدئہ دل فراش کیا۔ مولانا کی تبلیغ کے اثرات بھی بڑھنے لگے۔ اطراف و جوانب کے لوگ بھی مولانا کی وجہ سے مسلک اہلِ حدیث میں داخل ہونے لگے۔ جناب احتشام الحق لکھتے ہیں :
’’اس کے بعد دربھنگہ ان کی تبلیغ اور دعوت کا ایک مرکز بن گیا۔ انھوں نے ان افراد کے تعاون سے محلہ بیلوا گنج میں ، جو محلہ چک زہرہ سے قریب ہی ہے، ایک چھوٹی سی زمین حاصل کی۔ اس میں پھونس کی ایک جھونپڑی تیار کی گئی، جس میں مولانا جب دربھنگہ تشریف لاتے تو قیام فرماتے اور یہاں سے دربھنگہ کے اطراف و جوانب کا سفر کرتے۔ اطراف و جوانب کے لوگ بھی مولانا کی آمد کی خبر سن کر یہاں آکر ان سے ملاقات کرتے۔ یہ لوگ اہلِ چک زہرہ کے مہمان ہوتے۔ اہلِ چک زہرہ بھی فراخ دلی سے مولانا اور ان کے مہمانوں کی ضیافت کرتے۔ اس طرح دربھنگہ کے اطراف و جوانب میں دور دور تک آپ کے پیروکاروں کی جماعت بنتی گئی اور سنت کا بول بالا ہوتا چلا گیا۔ اس لیے دربھنگہ کی یہ زمین ان کو مدرسہ احمدیہ آرہ کی منتقلی کے لیے مناسب معلوم ہوئی۔ چنانچہ ۱۳۳۶ھ مطابق ۱۹۱۸ء میں اسی چھوٹی سی پھونس کی جھونپڑی میں منشی اصغر حسین پیغمبر پوری اور حافظ عبد اللہ بھواری کو رکھ کر بچوں کی تعلیم شروع کرا دی اور اس طرح مدرسہ احمدیہ سلفیہ کی بنیاد پڑ گئی۔ بعد میں نسبتِ قادیانیت سے گریز کے لیے سلفیہ کا اضافہ کیا گیا۔‘‘[1]
یہ مولانا کا دورِ آخر تھا۔ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک انھوں نے اپنی ہمتوں اور حوصلوں کو مسلکِ عمل بالحدیث کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کیے رکھا۔ جماعتی تنظیم میں بھی حصہ لیتے رہے اور مدارس کے قیام و ثبات میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ ’’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘‘ کو مولانا تعمیر و ترقی کے اوجِ کمال پر تو نہ پہنچا سکے، مگر اپنے جانشینوں کی انھوں نے جس انداز سے تربیت کی تھی، انھوں نے مولانا ہی کے تصور کے مطابق پھونس کی بنی اسی مسجد کو عظیم الشان دار العلوم میں تبدیل کر دیا۔ ۱۹۱۸ء میں مولانا نے وفات پائی۔ یہ ایک ایسا خسارہ تھا جس کی تلافی ممکن نہ تھی، لیکن دنیا میں خواہ کوئی
[1] دار العلوم احمدیہ سلفیہ، صد سالہ مد و جزر (ص: ۳۰، ۳۱)