کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 638
مدرسہ محمدیہ سلفیہ، دیودھا، ضلع مدھوبنی: ۱۹۱۸ء میں مدرسے کی بنیاد مولانارحیم آبادی اور حافظ محمد نواب علی کے ہاتھوں سے ڈالی گئی۔ مولانا عزیز الرحمن سلفی لکھتے ہیں : ’’مدرسہ ہذا ہند و نیپال کی ایسی جگہ پر واقع ہے جس کے اطراف و اکناف میں شرک و بدعت کا دور دورہ تھا، لیکن مدرسہ ہذا کی برکت سے لوگ توحید سے روشناس ہوئے اور ان کے دل نورِ توحید سے منور ہو گئے۔ اسی مدرسہ کے فیض یافتگان میں مولانا عین الحق سلفی مرحوم، مولانا شمس الحق صاحب سلفی استاد جامعہ سلفیہ بنارس، مولانا ابو القاسم صاحب فیضی مرحوم جیسے نادر المثال لوگ بھی ہیں ۔ جامع مسجد کی نئی تعمیر بھی مدرسہ ہی کی برکت ہے۔‘‘[1] مدرسہ احسانیہ، محمد پور کواری، ضلع سمستی پور: محمد پور کواری موجودہ ضلع سمستی پور کا مشہور مقام ہے۔ جناب احتشام الحق لکھتے ہیں : ’’یہ اہلِ حدیث کی قدیم اور بڑی بستی ہے۔ جلسہ مذاکرہ علمیہ کا مشہور اجلاس ۱۹۱۰ء میں اسی گاؤں میں منعقد ہوا تھا، جس میں غیر منقسم ہندوستان کے اکابر علمائے اہلِ حدیث نے شرکت کی تھی۔ یہاں ۳ جامع مسجد اہلِ حدیث ہے۔‘‘[2] ۱۳۲۷ھ میں حسبِ ایمائے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی یہاں ’’مدرسہ احسانیہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ 6۔مدرسہ احمدیہ سلفیہ،در بھنگہ: ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کے زوال کے بعد مولانا رحیم آبادی نے دربھنگہ میں ایک مرکزی دینی درسگاہ کا قیام عمل میں لایا۔ خاص شہر دربھنگہ سے مولانا کا تعلق کس طرح استوار ہوا؟ اس کی بھی ایک دل چسپ داستان ہے۔ گو اس زمانے میں رحیم آباد ضلع دربھنگہ ہی کا حصہ تھا، لیکن مولانا کی شہر دربھنگہ میں آمد و رفت کم ہی ہوا کرتی تھی۔ جھگڑوا مسجد کے سلسلے میں مہاراجہ دربھنگہ سے مسلمانانِ دربھنگہ کا جو اختلاف ہوا وہ مولانا کی کوششوں اور اصابتِ رائے سے دور ہوا۔ یہ سبب مولانا کے اہلِ دربھنگہ سے
[1] جماعت اہلِ حدیث کی تدریسی خدمات (ص: ۱۰۳) [2] دار العلوم احمدیہ سلفیہ، صد سالہ مد و جزر (ص: ۱۰۰)