کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 637
اپنے تمام امور میں اپنا جانشین مولانا عبد العزیز کو بنایا۔ جب مولانا آروی نے ۱۳۱۹ھ میں حجازِ مقدس میں وفات پائی تو مولانا رحیم آبادی کو مدرسے کا با قاعدہ مہتمم نامزد کیا گیا، تاہم چند برسوں کے بعد حالات کچھ اس نہج پر پہنچ گئے کہ علامہ رحیم آبادی کے لیے مدرسے کا نظم ونسق چلانا ممکن نہیں رہا، جس کے بعد علامہ نے دربھنگہ میں اسی نہج پر ایک دینی درسگاہ ’’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘‘ کے نام سے قائم کی۔ 2۔مدرسہ اسلامیہ ، راگھو نگر، مدھوبنی: راگھو نگر بھوارہ ضلع مدھوبنی میں مولانا فاضل رحیم آبادی نے ۱۳۳۵ھ/ ۱۹۱۷ء میں ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، تاکہ شرک و بدعت کے گہوارے اسلامی علوم کے نور سے منور ہوں ۔ اس کی جدید عمارت کی بنیاد مولانا عبد الوہاب آروی کے ہاتھوں رکھی گئی۔ یہ مولانا رحیم آبادی کا اخلاص تھا کہ یہ مدرسہ آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ جب اس کی ابتدا ہوئی تھی تو مدرسے میں صرف دو استاد اور ۱۰ طلبا تھے۔ ۱۹۹۶ء کی اطلاع کے مطابق مدرسے میں ۲۰ اساتذہ فرائضِ تدریس انجام دے رہے ہیں ، جبکہ طلابِ علم کی تعداد ۵۰۰ تک پہنچ گئی ہے۔۱۲۵ طلبا کے قیام و طعام کی ذمے داری مدرسے پر ہے۔[1] دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مدرسے میں عصری تعلیم کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ مدرسے کے فارغین کی ایک بڑی تعداد ہے جو ملک کے گوشے گوشے میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروفِ عمل ہے۔[2] مدرسہ محمدیہ عربیہ رہیکا، ضلع مدھوبنی: ۱۹۱۸ء میں مولانارحیم آبادی اور حافظ صاحب غازی پوری نے اپنے چند مخلص رفقا کے ساتھ مل کر اس مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ یہ مدرسہ آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ طلبا کے قیام و طعام اور وظائف کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔[3]
[1] ہندوستان کے اہم مدارس (۱/ ۴۷۸، ۴۷۹) [2] مدرسے سے متعلق مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : جماعت اہلِ حدیث کی تدریسی خدمات (ص: ۱۰۱)، ہندوستان کے اہم مدارس (۱/ ۴۷۸، ۴۷۹) [3] مدرسے سے متعلق مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : جماعت اہلِ حدیث کی تدریسی خدمات (ص: ۱۰۲)، ہندوستان کے اہم مدارس (۱/ ۴۸۷)