کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 636
سے تقریباً ۴۰ با کمال علما شریک ہوئے، جس میں ہر مسلک ہی کے علما شامل تھے، جن میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابو محمد عبد الحق حقانی دہلوی، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی، مولانا ابو رحمت حسن میرٹھی، شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری، مولانا ابو الخیر محمد مکی جون پوری، مولانا عبد الغفور دانا پوری، مولانا ابو بکر شیث جون پوری، مولانا حکیم محمد انصاری مچھلی شہری ثم دیوریاوی وغیرہم شامل تھے۔ مناظرے کا اصل موضوع ’’وید و قرآن میں الہامی اور سچا کون ہے ؟‘‘ تھا۔ پورے ایک ہفتے تک آریہ سماجیوں اور مسلمان اہلِ علم کے وعظ و نصائح جاری رہے، تاہم مسلمانوں کی جانب سے اصل مناظر مولانا ثناء اللہ امرتسری قرار پائے۔ اس دل چسپ اور اہم مناظرے کی روداد مولانا حکیم محمد انصاری مچھلی شہری ثم دیوریاوی کے فرزند مولانا عبد الحکیم نے لکھی تھی۔ مولانا رحیم آبادی کے وعظ و نصائح سے متعلق لکھتے ہیں : ’’آٹھ روز تک ادھر آریہ، ادھر مولوی صاحبان بلا ناغہ چار بجے دن سے نو بجے رات تک برابر مضامین علمی و اخلاقی سے حاضرین کو بہرہ مند کرتے رہے۔ ہمیں سب سے زیادہ جناب مولانا شاہ عین الحق صاحب سابق سجادہ نشیں پھلواری اور جناب سیّد المحدثین مولانا حافظ مولوی عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کا وعظ نہایت ہی پُر اثر معلوم ہوا کہ اس کو سن سن کر ہندو مسلمان روتے تھے۔‘‘[1] قیامِ مدارس و مساجد: مساجد و مدارس کے قیام میں علامہ رحیم آبادی کو خاص امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس عہد میں جس قدر مدارس کا قیام علامہ موصوف کی حسنات میں سے ہے، اس کی دوسری نظیر نواب صدیق حسن خاں والیِ بھوپال کو مستثنیٰ کرکے شاید ہی مل سکے۔ 1۔مدرسہ احمدیہ آرہ: ۱۲۹۸ھ میں مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے اپنے طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں قائم کیا۔ اپنی ہجرتِ مکہ کے وقت مولانا آروی نے مدرسے کے انتظام و انصرام کی ذمے داری اور
[1] تذکرۃ المناظرین (۱/ ۲۶۱)