کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 635
مناظرہ کرتے رہے، حتیٰ کہ اثنائے مناظرہ ہی میں جون پور سے مولانا ہدایت اللہ منطقی جون پوری اور دہلی سے مولانا عبد الحق حقانی دہلوی کو بلوایا گیا، مگر یہ تمام مناظر فاضل رحیم آبادی کے سامنے بے بس ہی رہے۔ وجوبِ تقلید کا اثبات بدستور احناف پر قرض ہی رہا۔ اس مناظرے نے فاضل رحیم آبادی کی شہرت کو بامِ عروج پر پہنچا دیا اور بنگال میں مسلکِ اہلِ حدیث کو فروغ اورا ستحکام حاصل ہوا۔
دورانِ مناظرہ مولانا رحیم آبادی نے بیش بہا قیمتی نکات پیش کیے جنھوں نے اکابرِ اہلِ علم کو بھی متاثر کیا۔ مولانا حافظ محمد صدیق مرولوی مظفر پوری لکھتے ہیں :
’’اس مناظرہ میں حضرت مولانا امام المناظرین نے آیتِ کریمہ {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ } کی جو تفسیر کی ہے، اس کی نسبت غالباً مخدومی و مکرمی مولوی نور الحق صاحب وکیل ذکر فرماتے تھے کہ جناب حضرت میاں صاحب موقع مدح میں فرماتے تھے کہ مولوی عبد العزیز نے اس آیت کی تفسیر ایسی کی ہے کہ متقدمین میں سے کسی نے یہ تفسیر نہیں کی اور امام رازی کو بھی نہ سُوجھی۔‘‘[1]
یہاں یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ احناف کی طرف سے پیش ہونے والے مناظر ملا محمد عارف، مولانا لطف الرحمن بردوانی اور مولانا عبد الحق حقانی دہلوی، حضرت شیخ الکل محدث دہلوی سے رشتۂ تلمذ رکھتے تھے۔ آخر الذکر مولانا حقانی، فاضل رحیم آبادی کے رفیقِ درس بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا نے انھیں ردودادِ مناظرہ میں ’’پرانے دوست‘‘ کہہ کر یاد کیا ہے۔
مولانا رحیم آبادی نے اس مناظرے کی روداد قلمبند کی تھی، جو ’’روداد مناظرہ مرشد آباد‘‘ کے عنوان سے طبع ہوئی۔ یہ روداد کئی مرتبہ طباعت پذیر ہوئی ہے۔ اس کا بنگالی ترجمہ ’’صمصام الموحدین‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا۔ مولانا سعید بنارسی نے بھی ’’کیفیت مناظرہ مرشد آباد‘‘ کے عنوان سے اس کی روداد لکھی۔
آریہ سماجیوں سے مناظرہ بمقام دیوریا:
۱۹۰۳ء میں اتر پردیش کے مشرقی ضلع دیوریا میں آریہ سماجیوں سے اہلِ اسلام کا عظیم الشان مناظرہ ہوا، جو ۱۶ اگست سے لے کر ۲۱ اگست تک جاری رہا۔ اس مناظرے میں اہلِ اسلام کی جانب
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۲ مارچ ۱۹۲۰ء