کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 634
ہندوستان کی تاریخ کے چند مشہور ترین اور بڑے مناظروں میں سے ایک تھا۔ مناظرہ وجوبِ تقلید پر تھا۔ فاتح مناظر علامہ عبد العزیز رحیم آبادی نے اس مناظرے کی مکمل روداد لکھی ہے، وہ اس مناظرے کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’پوشیدہ نہ رہے کہ ابتدا اس کی اس طرح ہوئی کہ درمیان مولوی عبد الحق نامی ایک حنفی مذہب اور مولوی ابراہیم نامی ایک اہلِ حدیث باشندگان ضلع مذکور (مرشد آباد) کے اولاً مسئلہ وجوب تقلیدِ شخصی کے بارے میں مناظرہ ہوا تھا۔ اس مناظرہ میں مولوی عبد الحق حنفی صاحب مغلوب ہوئے اور مزید انصاف پسندی سے سر مجلس کھڑے ہوکر اقرار اپنی مغلوبیت کا کر دیا اور کہا کہ ابھی میں اس مسئلہ کو اس وجہ سے تسلیم نہیں کر سکتا کہ مجھ سے بڑھ کر بڑے بڑے علماء ہیں ۔ اس کے لیے میں اہتمام کروں گا اور تمام علماء کو اکٹھا کرکے مناظرہ کراؤں گا۔ اس وقت جو محقق ہوگا تسلیم کروں گا۔ چنانچہ حسبِ وعدہ انھوں نے مزید صرف ہمت و کشش کے ساتھ تمام رؤسا اور اکابر اس دیار کو آمادہ کیا اور ہزاروں روپے اکٹھے کیے، اور علمائے دیار و امصار کو طلب کیا اور اہلِ حدیث کو بھی اپنے اہتمام کی خبر دی تاکہ وہ لوگ بھی آمادہ رہیں ۔‘‘[1]
مولانا ابراہیم خلیل دیب کنڈی مرشد آبادی نے بھی علمائے اہلِ حدیث کو مناظرے کی کیفیت سے آگاہ کیا اور ان سے مرشد آباد آنے کی استدعا کی۔ بوقتِ مناظرہ کبار اہلِ حدیث علماء وہاں مجتمع ہو گئے، جن میں مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری، مولانا محمد منگل کوٹی، مولانا محمد سعید بنارسی، مولانا محمد بن کرامت اللہ راجشاہی، مولانا ابو محمد حفاظت اللہ مرشد آبادی وغیرہم شامل تھے۔ تجویز یہی قرار پائی کہ اہلِ حدیث کی جانب سے مولانا عبد العزیز مناظر ہوں ۔ مناظرے کی خاص بات یہ تھی کہ روزِ اوّل سے آخر تک فریق اہلِ حدیث کی جانب سے فاضل رحیم آبادی واحد مناظر رہے، جب کہ احناف کی طرف سے مناظر بدلتے رہے۔ سب سے پہلے مولوی کریم بخش صاحب سامنے آئے۔ اس کے بعد ملا محمد عارف، مولانا لطف الرحمن بردوانی اور مولوی سعد الدین
[1] روداد مناظرہ مرشد آباد( ص: ۳)