کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 633
بحیثیتِ مناظر: مولانا کا عہد مناظروں کا عہد تھا۔ اس کی بھی اپنی افادیت تھی جو اس دور کے تناظر میں پوری شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی لکھتے ہیں : ’’بعض بزرگوں نے مناظرات کی راہ اختیار کی۔ وقتی خطرات کے لیے یہ ایک مفید علاج تھا، ممکن ہے ان کی افادیت میں کسی دوست کو اختلاف ہو، لیکن وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ان کے مفید ہونے میں شبہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘[1] مولانا نہایت ذہین و طباع تھے۔ مناظرئہ مرشد آباد کے موقع پر اکابر اہلِ حدیث کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ متعدد علما تھے جو عمر میں مولانا رحیم آبادی سے بڑے اور صاحبِ اثر تھے، لیکن مولانا ابراہیم آروی کی تجویز یہی تھی کہ اہلِ حدیث کی جانب سے مناظرہ مولانا عبد العزیز کریں ۔ اسی تجویز کی حافظ عبد اللہ غازی پوری نے تائید کی اور یہی امرِ واقع بنا۔ کیونکہ مولانا آروی اور حافظ صاحب غازی پوری دونوں مولانا کی ذہانت و فطانت کے معترف تھے۔ پھر مولانا کی کامیابی نے انھیں مناظرات کی دنیا میں بے انتہا مقبول بنا دیا۔ فنِ مناظرہ میں مولانا کو درجہ امامت حاصل تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ’’جماعتِ اہلِ حدیث اور مناظرہ‘‘ کے زیرِ عنوان اپنے ایک اداریے میں لکھتے ہیں : ’’مولانا رحیم آبادی تو ایسے مناظر تھے کہ ان کو رئیس المناظرین کا لقب دینا بھی ان کی شان سے کم ہے۔ مناظرہ مرشد آباد ان کی زندگی کی یادگار ہے۔‘‘[2] شاہ سلیمان پھلواروی نے اپنے ایک مکتوب بنام مولانا ثناء اللہ امرتسری میں علامہ رحیم آبادی کو ’’امام المتکلمین‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا۔[3] مناظرہ مرشد آباد: ۱۳۰۵ھ/ ۱۸۸۸ء میں مرشد آباد میں اہلِ حدیث اور احناف کے مابین ہونے والا مناظرہ
[1] نگارشات (۱/ ۱۹۲) [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۶ نومبر ۱۹۳۲ء [3] ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ (امرتسر) ۴ مارچ ۱۹۱۰ء