کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 632
مسجد ریلوے مظفر پور: مظفر پور ریلوے اسٹیشن میں ایک گنبد دار مسجد آج بھی چاروں طرف سے ریلوے لائن سے گھری نظر آتی ہے۔ اس مسجد کا قیام و ثبات بھی مولانا کے حسنات میں سے ہے۔ جب ریلوے حکام نے اسٹیشن کو وسعت دینی چاہی تو ان کی راہ میں یہ مسجد حائل تھی۔ اعلیٰ حکام کو خبر دی گئی تو انگریز جنرل منیجر خود ہی مظفر پور آیا اور یہاں ہفتوں رہ کر مسجد کو اس کی جگہ سے منتقل کرنے کی راہ ہموار کرتا رہا۔ مسلمانوں سے وعدہ کرتا رہا کہ وہ اس مسجد کی جگہ دوسری جگہ لے لیں جہاں اس سے بھی زیادہ بڑی اور عمدہ مسجد تعمیر کروا دی جائے گی۔ مسلمان مسجد کی بے حرمتی کے لیے تیار نہیں تھے، بڑے متذبذب تھے، تاہم ان کے پاس انگریز جنرل منیجر کو جواب دینے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل بھی نہیں تھی۔ معاملہ فریقین کے مابین الجھا ہوا تھا کہ مولانا کو اطلاع ہوئی۔ فوراً مظفر پور پہنچے۔ حالات کا جائزہ لیا۔ جنرل منیجر کے پاس تشریف لے گئے۔ جنرل منیجر اصرار کرتا رہا کہ مسلمان مسجد کا معاوضہ دوسری جگہ تعمیر مسجد کی شکل میں لے لیں ، تاکہ یہاں اسٹیشن کی توسیع کی جا سکے۔ مولانا نے جواب دیا: ’’مسجد کسی مسلمان کی ملکیت نہیں ہوتی۔ آپ ہم سے مسجد کے سلسلے میں جو سوال کر رہے ہیں اس کے مالک سے کریں ۔ ہم اس پر اپنا حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں ، جو ہماری ملکیت نہیں ۔ آپ اس کے مالک سے اس کو مانگ لیں ، اگر وہ دے دے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔‘‘[1] یہ سن کر انگریز جنرل منیجر لا جواب ہو گیا۔ آج بھی مظفر پور ریلوے اسٹیشن پر یہ گنبد دار مسجد مولانا کی کامرانی اور انگریز جنرل منیجر کی ناکامی کی زندہ یادگار موجود ہے۔ مسجد جمال پور: ضلع مونگیر کا ایک شہر جمال پور ہے جہاں ۱۹۰۹ء میں اہلِ حدیث اور احناف کے مابین ایک اختلاف رونما ہوا۔ وہاں ایک مسجد تھی جس کا انتظام و انصرام مقامی اہلِ حدیث حضرات سنبھالتے تھے۔ اختلاف اتنا بڑھا کہ اہلِ حدیث کو مسجد سے نکال دیا گیا۔ ان مقامی افراد کی مدد کے لیے مولانا آگے بڑھے۔ بالآخر مولانا کی کوششیں رنگ لائیں اور مسجد دوبارہ ان کے اصل متولیان کو مل گئی۔
[1] حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۶۶)