کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 631
کیں ۔ ہندوؤں کو اس پر غرہ تھا کہ مسلمان کمزور اور غرباء ہیں ، وہ اس خرچ کا بار نہیں اٹھا سکیں گے۔ لیکن اللہ رب العزت کی تائید ایسی شاملِ حال رہی کہ بالآخر تین برس بعد ڈویژنل جج مظفر پور نے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ مولانا محمد صدیق مظفر پوری اس قضیے میں مسلمانوں کی کامیابی کی اطلاع دیتے ہوئے ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کے قارئین کو آگاہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں اس موقع پر جناب علامہ حضرت مولانا مولوی حافظ محمد عبد العزیز صاحب رحیم آبادی مدظلہ العالی کے ذکر و شکر کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ آپ ہی کے بذلِ سعی اور ہمتِ عالی کا یہ نتیجہ اللہ پاک نے دکھایا، جزاہم اﷲ۔‘‘[1]
۱۹۱۴ء میں آخری فیصلہ آیا اور مسلمانوں کے حق میں کلکتہ ہائی کورٹ نے حکم نامہ جاری کیا۔ اس مقدمے میں مسلمانوں کی جانب سے ۸۰ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے، جو اس زمانے میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اس مقدمے کی پیروی مولانا عبد اللہ سیتا مڑھی کیا کرتے تھے، لیکن اخراجات کی تمام تر ذمے داری مولانا رحیم آبادی پر تھی۔ دورانِ مقدمہ ایسا وقت بھی آیا کہ مولانا معاشی لحاظ سے بہت کمزور ہو گئے۔ کبھی کبھی محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ان کی جیب خالی رہ جاتی تھی، لیکن اللہ ربّ العزت غیب سے ان کی مدد فرما دیا کرتے تھے۔مولانا کے سوانح نگار مولانا فضل الرحمن سلفی بہ روایت حافظ محمد سلیمان لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ مولوی عبد اللہ صاحب صبح سویرے رحیم آباد آئے کہ آج مقدمہ کی تاریخ ہے اور خرچ نہیں ہے۔ مولانا بہت خفا ہوئے کہ پہلے سے کیوں نہیں خبر کیا۔ پھر بابو عبد اللہ مرحوم کو حکم دیا کہ ان کو ناشتہ کھلاؤ، جب ناشتہ سے فارغ ہو کر حاضر ہوئے تو قلم دان منگایا اور کھول کر ہاتھ اندر داخل کر کے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر مولوی صاحب موصوف کے حوالہ کر دیا۔ بابو مرحوم نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ان دنوں مولانا کے پاس پیسے نہیں ہیں اور قلم دان خالی ہے۔‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۶ مئی ۱۹۱۳ء
[2] حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۶۴)