کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 630
نسلوں تک چلتا رہا تھا۔ اسی بنا پر عوام الناس میں اس مسجد کا نام ہی جھگڑوا مسجد پڑ گیا ۔ مہاراجہ سر رامیشور سنگھ ٹھاکر (۱۸۶۰ء ۔ ۱۹۲۹ء) ۱۸۹۸ء میں دربھنگہ کے راجہ بنے۔ ان کی نیت بھی مسجد کے حوالے سے درست نہیں تھی، وہ چاہتے تھے کہ مسجد کو اپنے زیر نگیں لے آئیں ۔ چنانچہ ان کے دور میں مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی ذاتِ گرامی موجود تھی، ممکن نہیں تھا کہ مولانا کی متحرک شخصیت اس قضیے سے لا تعلق رہ سکتی۔ لہٰذا چند دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر مولانا پوری شدت کے ساتھ راجہ کے مزاحم ہوئے۔ مولانا کی مساعیِ حسنہ کامیاب ہوئیں اور بالآخر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا۔[1]
رامیشور سنگھ کے بیٹے کا میشور سنگھ کے عہد میں بھی یہ جھگڑا اس وقت دوبارہ پیدا ہوا جب تقسیمِ ہند سے چند برس قبل راجہ نے لال قلعے کی طرز پر ایک عالی شان قلعہ بنوایا جو آج بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم راجہ کی خواہش تھی کہ مسجد کو قلعے کے احاطے میں داخل کر لے، لیکن مسلمانوں نے اس بار بھی بھرپور مزاحمت کی اور فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا۔ قلعے کی فصیل تعمیر ہونے لگی تو پھر اختلاف پیدا ہوا، تاہم راجہ کو ناکامی ہوئی اور مسجد کے پاس قلعہ کی دیوار خم کر دی گئی۔[2]
سیتا مڑھی کا مقدمۂ قربانی:
تقریباً ۱۹۱۰ء کی بات ہے، سیتا مڑھی میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین گائے کی قربانی پر سخت تنازع ہوا۔ سیتا مڑھی میں باجپٹی اسٹیشن کے قریب ایک بستی حسن پور برہروا ہے، وہاں ہندوؤں نے عین اس وقت حملہ کر دیا جب مسلمان نمازِ عید ادا کر رہے تھے۔ مسلمان خالی ہاتھ اور ہندو ہتھیاروں سے لیس تھے۔ اس وقت ایک کمزور دبلے پتلے مسلمان کے دل میں ایسی قوت بھر دی کہ وہ ایک معمولی چھڑی لیے آگے بڑھے اور اسی سے ایک پہلوان کی تلوار چھین لی اور آن کی آن میں تین حملہ آوروں کی لاشیں گرا دیں ۔ اسے دیکھ کر دوسروں نے بھی ہمت کی اور جلد ہی حملہ آور فرار ہو گئے۔ لیکن مسلمان گرفتار ہوئے اور متعدد حوالات میں نظر بند ہوئے۔ مقدمے بازی کی نوبت آئی۔ تین برس تک مسلسل یہ نزاعی کیفیت جاری رہی۔ طرفین نے کلکتہ ہائی کورٹ تک سے وکلاء کی خدمات حاصل
[1] عہدِ اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین (ص: ۲۸)
[2] عہدِ اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین (ص: ۲۷)