کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 63
شیخ الکل کی بارگاہِ علم و فضل میں :
محرم ۱۲۹۵ھ کو دہلی میں السید الامام میاں نذیر حسین کی بارگاہِ علم وفضل پر دستک دی اور ایک برس تک کتبِ احادیث بضبط و اتقان پڑھیں اور سندِ حدیث لے کر واپس ہوئے۔ ڈیانواں واپس آنے کے بعد درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں ہمہ تن مشغول ہوئے، مگر ۱۳۰۲ ھ میں حضرت میاں نذیر حسین کے پاس دوبارہ دہلی تشریف لے گئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک حضرت شیخ الکل کی صحبتِ بابرکت سے مستفید ہونے کے بعد سید نذیر حسین سے دوبارہ سند لے کر ۱۳۰۳ھ میں رخصت ہوئے۔ شیخ الکل سے استفادے کی مجموعی مدت تقریباً اڑھائی برس رہی۔ اس عرصے میں ان سے ترجمہ قرآن مجید، تفسیر جلالین، کتبِ ستہ، موطا امام مالک، سنن دارمی، سنن دارقطنی اور شرح نخبۃ الفکر پڑھیں ۔ ان میں سے اکثر کتب سبقاً سبقاً پڑھیں اور بعض کتب کے اطراف اول و آخر و مواضع متفرقہ بکمالِ ضبط و اتقان پڑھے۔ اس عرصے میں اپنے استاد گرامی کے حکم سے بہت سے فتاوے تحریر کیے۔
شیخ حسین یمانی سے استفادہ:
دہلی کے اس دوسرے سفر سے واپسی پر بھوپال میں یمن کے رفیع المنزلت عالمِ دین، عالی قدر محدث اور وسیع النظر فقیہ شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری سے بھی مستفید ہوئے اور کتبِ حدیث کی عام اجازت حاصل کی۔ اس کے علاہ بھی مختلف اوقات میں دس بارہ مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استفادہ کیا۔
تکمیلِ علم کے بعد:
اس بار ڈیانواں آکر محدث شمس الحق ترویجِ اقامتِ دین، فروغ عمل بالحدیث، اشاعتِ کتاب و سنت اور دفاعِ مسلکِ سلف کے لیے مستعد ہو گئے۔ تصنیف و تالیف اور تدریس و تذکیر کے ذریعے اپنی مساعیِ جمیلہ کا آغاز فرمایا اور اپنی بے لوث ومخلص کوششوں سے جلد ہی اس مقام پر پہنچ گئے کہ آپ کی ذات جہودِ نصرتِ حق اور اشاعتِ علومِ دین کے ضمن میں بے انتہا مقبول اور عزیز تر خیال کی جانے لگی۔