کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 629
تھا۔ عاملین بالحدیث پر اس کی خاص کرم فرمائی تھی، جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی سے خصوصی راہ و رسم اور آشنائی بھی۔ اخبار ’’ریاضِ ہند‘‘ (امرتسر) کے مدیر نے مقدمہ تاج پور کے فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے ’’ایک مسجد کا مقدمہ اور پریوی کونسل لنڈن‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ہے:
’’ہم کو اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر افسوس ہوا ہے کہ تاج پور ضلع دربھنگہ کی ایک مسجد کی بابت جو وہاں کے اہلِ حدیث اور حنفی لوگوں میں مقدمہ ایک مدت سے چلا جاتا تھا اور ہندوستان کے ما تحت اور اعلیٰ عدالتیں طے کر گیا تھا آخر کار لنڈن پریوی کونسل سے اہلِ حدیث کے حق میں فیصل ہوا۔ بڑا افسوس ہے کہ مسلمان لوگ کیسے کیسے فضول کاموں میں روپیہ اور لیاقت اور طاقت خرچ کرتے ہیں ۔ شرم کا مقام ہے اگر یہ معاملہ یہیں گھر میں مصالحت سے طے ہو جاتا اور وہ روپیہ اور تمام منصوبے جو اس بارہ میں کام آئے ہیں کسی عمدہ مصرف میں لگائے جاتے تو کیسا نیک اور مبارک کام تھا۔‘‘[1]
اس میں شبہہ نہیں کہ احناف و اہلِ حدیث کی ان مقدمے بازیوں نے اس عہد میں لاکھوں روپے برباد کیے۔ مگر ا س کے لیے اہلِ حدیث سے کہیں زیادہ وہ مقامی احناف قصور وار ٹھہرائے جا سکتے ہیں جنھوں نے اہلِ حدیث پر مساجد کے دروازے بند کیے اور ان کا معاشرتی مقاطعہ کرنے کی کوشش کی۔ اہلِ حدیث کی حیثیت تو محض دفاعی نوعیت کی تھی۔ فاضل مدیر کی روشن خیالی نے اس وقت کچھ نہ لکھا جب اہلِ حدیث کو دھکے مار مار کر مساجد سے باہر نکالا جا رہا تھا۔
بایں ہمہ ’’ریاضِ ہند‘‘ کی مذکورہ عبارت محض ایک نظریے کے طور پر پیش کی گئی ہے اور اس فکر سے جو ابہام پیدا ہوتے ہیں اس کا ازالہ مقصود ہے، تاکہ آج تاریخ کے طالبِ علم کے سامنے اس عہد کی درست منظر کشی ہو سکے اور واقعات کی روشنی میں حقائق کا درست طور پر ادراک کیا جا سکے۔
جامع مسجد دربھنگہ اور راجہ دربھنگہ:
دربھنگہ میں ایک جامع مسجد ہے جسے ۱۷۳۷ء میں نواب علی وردی خاں کے ایک افسر نے تعمیر کرایا تھا۔ مسجد کے سلسلے میں مہاراجہ دربھنگہ اور مسلمانوں کے درمیان کئی بار جھگڑا ہوا۔ یہ جھگڑا کئی
[1] ہفت روزہ ’’ریاضِ ہند‘‘ (امرتسر) ۳۰ مارچ ۱۸۹۱ء