کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 628
اور نیز حنفی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے اور مکہ ہو آیا ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ وہاں چاروں اماموں کو ماننے والے عامل بالحدیث کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور عامل بالحدیث چاروں اماموں کے ماننے والوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تاجپور میں اس کے قرب و جوار میں حنفی عامل بالحدیث کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ۔‘‘[1] بالآخر پریوی کونسل سے اہلِ حدیث کے حق میں فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کی اہمیت کس درجہ تھی؟ اس کا اندازہ لگانے سے آج اذہان قاصر ہیں ۔ علامہ ثناء اللہ امرتسری ایک مقام پر رقمطراز ہیں : ’’رحیم آبادی خاندان کا احسان کوئی خاص رحیم آباد کے اردگرد والوں سے یا اپنے صوبہ سے مخصوص نہ تھا،بلکہ سارے ہندوستان کے اہلِ حدیثوں پر احسانِ عام تھا۔ اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ شیخ احمد اللہ صاحب ہی وہ بزرگ ہیں جنھوں نے ہزارہا روپیہ خرچ کر کے پریوی کونسل لندن میں مقدمہ جیتا تھا کہ اہلِ حدیث ہر مسجد میں اپنے طریق پر نماز پڑھ سکتے ہیں ، بلکہ حنفیوں کے امام ہوسکتے ہیں ، کیونکہ حسبِ فیصلہ شاہی ججان فرقہ اہلِ حدیث پکے اہلِ سنت و الجماعت ہیں ۔ جماعت اہلِ حدیث اس خاندان کے اس عام احسان کا جتنا شکریہ ادا کرے کم ہے۔ غفر اللّٰه لھم ورحمھم‘‘[2] کسی مقدمے کا پریوی کونسل تک پہنچنا معمولی بات نہیں تھی۔ پھر مقدمہ بھی خالص مذہبی نوعیت کا ہو تو اس کی شہرت اپنے پورے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ مظفر پور کی عدالت سے جب فیصلہ احناف کے حق میں ہوا تھا تو اس کی روداد احناف نے ’’کیفیتِ مقدمۂ مظفر پور‘‘ کے عنوان سے احسن المطابع پٹنہ سے طبع کی تھی۔ ہماری نظر سے یہ روداد گزری ہے۔ پریوی کونسل کے فیصلے کے بعد شیخ احمد اللہ کے بڑے صاحبزادے مولانا عبد الرحیم نے ایک روداد طبع کروائی تھی جو افسوس ہمیں دستیاب نہ ہو سکی۔ اس عہد کے مختلف اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوئیں ۔ انہی میں سے ایک ’’ریاضِ ہند‘‘ (امرتسر) بھی ہے۔ جو اس زمانے میں روشن خیالی کا دعویدار اور آج کی اصطلاح میں ’’سیکولر مزاج‘‘ کا اخبار
[1] فتوحات اہلِ حدیث (ص: ۷۹) [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء