کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 627
مظفر پوری بڑے با رسوخ تھے۔ یہ صاحب مولانا ولایت علی صادق پوری کے نام لیوا تھے، عالم نہیں تھے، تاہم ترجمہ قرآن اور چند کتابیں پڑھ کر اَن پڑھوں میں وعظ کہا کرتے تھے۔ پیری مریدی کا سلسلہ بھی شروع کیا اور اپنے اطراف میں اچھا حلقۂ اثر و ارادت پیدا کر لیا تھا۔ شیخ احمد اللہ بھی ایک زمانے میں ان کے دامنِ عقیدت سے وابستہ تھے۔ ابتداءً شاہ احمد اللہ نے بھی مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی بڑی قدر و منزلت کی تھی۔ انھیں امام بنا کر ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں ۔ شاہ احمد اللہ جہلاء میں پیر بن بیٹھے تھے، جب کہ مولانا عبد العزیز فارغ التحصیل عالمِ دین تھے۔ پیر صاحب محض وعظ و نصیحت پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ افتا و قضا کی ذمے داریاں بھی نبھانی چاہتے تھے۔ نتیجہ ظاہر تھا، کئی ایک دفعہ غلط مسائل بتائے جس پر مولانا نے علم و دلیل کی رُو سے گرفت کی۔ شاہ صاحب تنقید برداشت نہ کر سکے اور اسے اپنی بے عزتی پر محمول کیا۔ انھیں اپنی بے وقعتی کا خیال ستانے لگا۔ جلد ہی مقلد، غیر مقلد اور حنفی، اہلِ حدیث کے مباحث چھیڑنے لگے۔ مولوی یحییٰ صاحب نے انھیں بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ مولوی رسول شاہ امرتسری ثم عظیم آبادی بھی احناف کی جانب سے پیش پیش تھے۔ کچھ دوسرے حساد بھی ساتھ ہو گئے۔ مظفر پور کی عدالت سے مقدمہ احناف کے حق میں فیصلہ ہوا۔ ان مقامی احناف کی طرف سے سارا زور اس پر تھا کہ اہلِ حدیث، اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہیں ، اس لیے احناف کی مسجد میں فرائض عبادت انجام نہیں دے سکتے، کجا یہ کہ امامت کے فرائض انجام دیں ۔ اگر یہ فیصلہ صادر ہو جاتا اور اس پر پسپائی اختیار کر لی جاتی تو یقینا دعوتِ عمل بالحدیث کو اس سے شدید نقصان پہنچتا۔ شیخ احمد اللہ اور ان کے فرزندانِ عالی کو اس کا بخوبی ادراک تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے روپے پیسوں کی قطعاً کوئی پروا نہ کی۔ مقدمے کو پریوی کونسل لندن میں لڑنے کا فیصلہ کیا۔ صرف پریوی کونسل لندن کے اخراجات کی ڈگری تین ہزار کی ہوئی، ضلعی ہائی کورٹ اور دیگر اخراجات اس پر مستزاد تھے۔ مدعا علیہ حافظ مولا بخش کے پہلے گواہ شیخ احمد اللہ تھے۔ پریوی کونسل کے فیصلے میں لکھا ہے: ’’شیخ احمد اللہ ان لوگوں میں سے ہے جنھوں نے مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ دیا تھا۔ وہ اوّل گواہ مدعا علیہم کی طرف سے ہے، لیکن وہ بیان کرتا ہے کہ وہ خود عامل بالحدیث ہے