کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 626
مسجد تاج پور: مسجد تاج پور کا مقدمہ تاریخ اہلِ حدیث کا ایک اہم باب ہے۔ گو اس کی کامیابی کا اصل کارنامہ مولانا رحیم آبادی کے والد گرامی شیخ احمد اللہ کے سر ہے۔ احناف کی طرف سے اہلِ حدیث پر یہ مقدمہ قائم ہوا تھا کہ وہ اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہیں ، اس لیے احناف کی مساجد میں اہلِ حدیث اپنے فرائضِ عبادت انجام نہیں دے سکتے۔ شیخ احمد اللہ نے یہ مقدمہ پریوی کونسل لندن تک لڑا اور مقدمے کے تمام مصارف خود ادا کیے۔ اس مقدمے کا پسِ منظر اور پریوی کونسل کا فیصلہ ضمیمہ ’’شحنہ ہند‘‘ (میرٹھ) میں شائع ہوا تھا۔[1] اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ تاج پور (ضلع دربھنگہ) میں ایک مسجد تھی جس میں بر سہا برس سے اہلِ حدیث اور احناف ایک ساتھ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کسی قسم کی کوئی نزاعی صورتِ حال نہ تھی۔ ایک صاحب مولوی محمد یحییٰ تھے، جو شیخ احمد اللہ ہی کے خوانِ یغما کے خوشہ چیں تھے، برسہا برس سے تعلقات تھے، حنفی مسلک پر عامل تھے۔ جب مولانا عبد العزیز دہلی سے تکمیلِ علم کے بعد واپس تشریف لائے تو ان کی فضیلتِ علمی نے بے شمار حساد بھی پیدا کر دیے اور ان کے ذوقِ اتباعِ سنت نے لوگوں میں عمل بالحدیث کا رجحان بھی پروان چڑھایا۔ کسی مجلس میں مولوی محمد یحییٰ اور مولانا عبد العزیز میں مباحثہ ہو گیا، جس میں مولوی یحییٰ صاحب کو خفت اٹھانی پڑی۔ یک قلم مزاجِ یار بدل گیا، دوستی رقابت سے مغلوب ہوگئی۔ مولانا اور ان کے خانوادے کے دشمن ہو گئے اور ہمہ وقت انھیں زک پہچانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔ اتفاق سے تاج پور کی ایک مسجد کے امام حافظ مولا بخش کی ایک مقامی فرد سے کچھ تکرار ہوگئی۔ حافظ مولا بخش عامل بالحدیث تھے۔ شیخ احمد اللہ اور ان کے خانوادے سے خصوصی تعلق رکھتے تھے۔ مولوی یحییٰ صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ مسلکی تعصب کی آگ بھڑکائی۔ لوگوں کو فقہی عصبیت کے نام پر اپنا ہم نوا بنایا اور معاملہ عدالت تک پہنچایا۔ فضل کریم مدعی اور حافظ مولا بخش مدعا علیہ تھے۔ تاج پور کی عدالت کے منصف اگرچہ حنفی تھے، لیکن انصاف پسند تھے۔ شر پسندوں کو یہاں سے کامیابی کی امید نہ تھی، اس لیے مظفر پور کی عدالت میں کیس کو منتقل کیا۔ ان اطراف میں شاہ احمد اﷲ
[1] ضمیمہ ’’شحنۂ ہند‘‘ (میرٹھ) ۱۶ مئی ۱۸۹۱ء