کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 623
دور بھی تھا جب جلسے میں ان کے سوا بقیہ آوازیں ماند پڑ جاتیں ۔ لوگوں کا کثرت سے آنا مولانا رحیم آبادی کے والد بزرگوار شیخ احمد اللہ کو گراں گزرتا۔ وہ اپنے بیٹے سے مسلسل جدائی برداشت نہ کر پاتے، لہٰذا انھوں نے مولانا پر پابندی عائد کردی کہ وہ دربھنگہ اور اس کے اطراف سے باہر نہ نکلیں ۔ والد سے اختلاف: پھر ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ مولانا کے والد ان سے ناراض ہو گئے۔ ناراضی کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، تاہم امرِ واقع یہ ہے کہ بزرگوں کی ناراضیاں بھی حکمتِ الٰہی سے خالی نہیں ہوتیں ۔ مولانا نے والد کا گھر اور رحیم آباد کا قیام ترک کیا تو دعوت و تبلیغ کی ایک نئی راہ کا آغاز ہوا۔ مظفرپور، تاج پور، دربھنگہ اور اس کے اطراف کے بخت جاگ اٹھے۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا دور دراز کے تبلیغی اسفار بھی ہوئے۔ تبلیغی جلسوں میں بھی شرکت کی اور مناظرے کی بزم بھی آراستہ کی۔ رحیم آباد سے ترکِ سکونت کے بعد جب عید کا موقع آیا تو شیخ احمد اللہ نے عید کی نماز کے لیے چاہا کہ مولانا کو بلوائیں ، لیکن شیخ صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا عبد الرحیم کے فرزند مولانا محمود بھی میاں صاحب سے تحصیلِ علم کرکے آ چکے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ مولانا عبد العزیز کو بلانے کی ضرورت نہیں ، محمود بھی تحصیلِ علم کرکے آچکے ہیں ، لہٰذا انھیں سے عید کی نماز پڑھوائی جائے۔ چنانچہ مولانا محمود نے عید کی نماز پڑھائی۔ شام کے وقت بیٹھک کے موقع پر شیخ احمد اللہ نے مولانا عبد الرحیم سے کہا کہ ’’تمھارا بیٹا میرے بیٹے کی طرح خطبہ نہ دے سکا۔‘‘ اس کے بعد ہمیشہ عید کے موقع پر مولانا کی رحیم آباد میں طلبی ہوتی رہی۔ یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ شیخ احمد اللہ اپنے تمام فرزندوں بالخصوص مولانا عبد العزیز کو بہت چاہتے تھے۔ ان کی ناراضی وقتی تھی، دائمی نہیں ۔ تاہم ناراضی ختم ہونے کے بعد بھی انھوں نے مولانا کو رحیم آباد مستقل سکونت کے لیے زور نہیں دیا، اس لیے کہ وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ مولانا خدمتِ اسلام کی جس راہ پر گامزن تھے وہ محدود نہیں غیر محدود تھیں ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے انھیں قید رکھنا ان کی صلاحیتوں کو محدود کر دینا ہے، اس لیے انھوں نے پھر کبھی مولانا پر ان کی مرضی کے بر خلاف کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی۔ اس زمانے میں مولانا کا مستقل قیام مظفر پور میں رہا، جب کہ اطراف و جوانب میں مولانا