کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 622
گئی اور علامہ کی علمی شہرت اطراف و اکناف میں پھیلنے لگی۔
تقریر و خطابت:
مولانا موصوف بہت بڑے واعظ اور مقرر تھے۔ ان کے پند و نصائح سے نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی متاثر ہوتے تھے۔ جب مجلسِ وعظ و ارشاد کو زینت دیتے تو بقول مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی:
’’وجلت منہا القلوب و ذرفت منہا العیون‘‘[1]
’’یعنی ’’دل دہل جاتے اور آنکھیں بہنے لگتیں ‘‘ کا سماں پیدا ہو جاتا۔‘‘
مشکل سے مشکل مضامین بھی آسان اور سہل انداز میں بیان فرما دیتے۔ علامہ ثناء اللہ امرتسری جب کبھی فاضل رحیم آبادی کی خطابت اور سحر بیانی کا تذکرہ فرماتے تو یہ شعر ضرور پڑھتے:
اثر لبھانے کا پیارے ترے بیان میں ہے کسی کی آنکھ میں جادو تری زبان میں ہے
عربی کے نامور ادیب مولانا عبد المجید حریری نے کسی موقع پر فرمایا تھا :
’’جماعت اہلِ حدیث میں مولانا جیسا شعلہ بار اور جادو بیان مقرر میں نے نہیں دیکھا۔‘‘[2]
۱۹۱۶ء میں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس منعقدہ بنارس میں اپنی پیرانہ سالی کے باوجود مولانا نے جو تقریر کی تھی، اسے سن کر وہاں کے احناف بھی کہتے تھے کہ اس شخص کو اگر جماعت اہلِ حدیث کا ’’امام غزالی‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔[3]
تبلیغی اسفار:
مناظرہ مرشد آباد کے بعد مولانا شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ گئے۔ مولانا کی ذہانت و فطانت اور ان کی تقریر و خطابت کے چرچے ہونے لگے۔ نزدیک و دور سے لوگ آتے اور مولانا کو وعظ و خطابت کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے۔ لوگ مولانا کے اس قدر فریفتہ تھے کہ ان کی ذاتی مجبوریوں کو بھی نہ سمجھتے اور ساتھ لے جانے کی ضد کرتے۔ وہ جس جلسے میں ہوتے اس کی جان بن جاتے۔ ایک ایسا
[1] مقدمہ حسن البیان (ص: ۱۴)
[2] ماہنامہ ’’رفیق‘‘ (پٹنہ) ’’علمائے بہار نمبر‘‘ جنوری فروری ۱۹۸۲ء
[3] ماہنامہ’’ رفیق‘‘ (پٹنہ) ’’علمائے بہار نمبر‘‘ جنوری فروری ۱۹۸۲ء