کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 621
مناظرہ مولانا کو شہرت کے بامِ عروج پر لے گیا۔ اس کی مزید تفصیلات آیندہ صفحات پر درج کی جائیں گی۔ میاں صاحب کی نگاہ میں مولانا کی قدر: حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کی درس گاہِ علم و فضل میں مولانا کا مقام محض ایک طالب علم سا نہیں تھا۔ وہ ایک محقق، جید الاستعداد اور بالغ النظر تلمیذِ رشید کا درجہ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب نے مولانا کو مسندِ دعوت و ارشاد پر بٹھایا اور وعظ کہنے کے لیے فرمایا۔ مولانا نے سورت قلم کا وعظ شروع کیا۔ اثنائے وعظ میں میاں صاحب کو جوش آگیا اور وہ خود بھی بیان فرمانے لگے۔ جب لائق تلمیذ نے دیکھا کہ استاد نے زبانِ قال سے علم و فضل کے موتی بکھیرنا شروع کر دیے ہیں تو خاموش ہوگئے۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ ’’چلو صاحب! بیان کرو۔‘‘ مولانا نے دوبارہ بیان شروع کیا، لیکن چند ثانیے بعد ہی میاں صاحب ساتھ ساتھ بیان فرمانے لگے تو مولانا خاموش ہو گئے اور ممبر سے اتر آئے۔ جب کوئی طالب علم میاں صاحب سے کسی عبارت کے مطلب میں یا کسی مسئلے میں کج بحثی کرتا اور ضد سے کام لیتا تو حضرت میاں صاحب فرماتے کہ ’’یہ نہیں سمجھے گا، بلاؤ اُس کو۔‘‘ میاں صاحب مولانا رحیم آبادی کو پیار سے ’’اُس کو‘‘ کہا کرتے تھے۔ قیامِ دہلی کے نتائج: دہلی میں جہاں مولانا نے علمِ حدیث کی تحصیل کی، وہیں اپنے اسی زمانۂ طالب علمی میں فنِ شہسواری اور فنِ طب کی بھی تکمیل کی۔ تاہم آپ کے استاذِ طب کے نام سے آگاہی نہ ہو سکی۔ اسی زمانے میں مولانا نے اپنی قیامِ دہلی کو غنیمت جانتے ہوئے شاہی مطبخ کے ماہرِ فن اساتذہ سے انواع و اقسام کے کھانے، حلوے، مربے اور مٹھائیاں بنانے کا فن بھی سیکھا۔ مولانا کی شخصیت بڑی ہمہ جہت تھی۔ وہ عمدہ و لذیذ کھانوں کے شوقین تھے، خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ تکمیلِ علم کے بعد: وطنِ مالوف لوٹنے کے بعد علامہ عبد العزیز نے وعظ و ارشاد اور تلقین و اصلاح کا سلسلہ شروع کیا۔ والدِ گرامی شیخ احمد اللہ نے اپنے خرچ پر رحیم آباد میں ایک مدرسہ قائم کیا اور پچاس طلبا کے مستقل نان و نفقہ کا ذمہ لیا، تاکہ تشنگانِ علم علامہ عبد العزیز سے استفادہ کر سکیں ۔ رفتہ رفتہ طلبا کی تعداد بڑھتی