کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 620
’’چشمۂ فیض و افادہ‘‘ سے مستفید ہو کر ۱۲۹۳ھ میں رحیم آباد مراجعت فرما ہوئے۔ علامہ عبد العزیز نے ان دو برسوں میں میاں صاحب علیہ الرحمہ سے کتبِ ستہ، موطا امام مالک، سنن دارمی، معجم صغیر طبرانی، ہدایہ، تفسیر جلالین اور اصولِ حدیث کی کتابوں کا درس لیا۔
زمانۂ طالبِ علمی کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ علامہ رحیم آبادی ۱۲۹۳ھ میں دہلی میں میاں صاحب سے اخذِ علم کر رہے تھے کہ رمضان المبارک کا مہینا آیا، ’’جلالین‘‘ شروع ہوئی۔ بعض طلبا گھر جانے کی جلدی کر رہے تھے، اس لیے بجائے ایک پارے کے دو پاروں کی نوبت آئی۔ یہ حال دیکھ کر ہمارے صاحبِ ممدوح نے درس میں شرکت چھوڑ دی۔ جب میاں صاحب نے انھیں غائب پایا تو بلوا بھیجا اور عدمِ شرکت کی وجہ دریافت کی، انھوں نے عرض کی: ’’جیسی جلالین یہاں پڑھائی جاتی ہے، ایسی مجھ کو خود آتی ہے۔‘‘ میاں صاحب نے فرمایا: ’’بہتر۔‘‘ یہ اٹھ کر تشریف لے آئے۔ ایک دن اثنائے سبق میاں صاحب نے ایک طالب علم کو بھیجا کہ مولوی عبد العزیز کو بلا لائیں ۔ یہ حاضر ہوئے، میاں صاحب نے جلالین کی ایک مشکل عبارت کا مطلب دریافت کیا، یہ لگے جوڑ توڑ کرنے، جس پر میاں صاحب نے کچھ اعتراضات کیے، اب تو یہ سوچنے لگے، تب میاں صاحب نے فرمایا:
ہر بیشہ گماں مبر کہ خالی ست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد [1]
یعنی بغیر استاد کی جوتی سیدھی کیے یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں ۔ یہ کہہ کر میاں صاحب نے عبارت کی تشریح کی اور فرمایا : ’’استادوں کے بتانے کی بھی جگہیں ہیں ۔‘‘ اس پرموصوف نے درس میں دوبارہ شرکت اختیار کی۔
جس زمانے میں مولانا دہلی میں حضرت میاں صاحب سے تحصیلِ علم کر رہے تھے، مشہور حنفی عالم و مفسر مولانا عبد الحق حقانی دہلوی بھی مولانا کے رفیقِ درس تھے۔ دونوں اکابرِ علم کے مابین زمانۂ طالبِ علمی ہی سے گہری وابستگی تھی۔ بحث و مباحثہ بھی خوب ہوتا تھا۔ مناظرئہ مرشد آباد کے موقع پر مولانا حقانی احناف کے نمایندہ مناظر بن کر مولانا کے مدِمقابل آئے تھے۔ مولانا نے انھیں رودادِ مناظرہ مرشد آباد میں پرانے دوست کہہ کر یاد کیا ہے۔ اس مناظرے میں مولانا کو کامیابی ملی اور یہ
[1] ’’ہر جنگل کو خالی مت سمجھو شاید کہ وہاں چیتا سویا ہو۔‘‘