کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 62
قدر میرے علم سے خود ہم کو اور خلایق کو نفع پہنچے گا، اس میں حق تبارک و تعالیٰ میرے ماموں مرحوم اور میری نانی مرحومہ کے لیے بھی حصہ ثواب کا عطا فرمائے گا۔‘‘[1]
کتبِ درسیہ کی تحصیل:
ابتدائی درسیات پڑھ لینے کے بعد ۱۲۸۸ھ میں ڈیانواں ہی میں مولانا لطف العلی بہاری سے کتبِ متوسطات کا آغاز کیا۔ مولانا لطف العلی بہاری اپنے زمانے کے جید عالمِ دین اور مسلک و عقیدہ کے اعتبار سے سلفی المشرب تھے۔ ان سے علامہ عظیم آبادی نے ’’شرح ملا جامی‘‘، ’’قطبی‘‘، ’’میبذی‘‘، ’’سنن الترمذی‘‘، ’’نور الانوار‘‘، ’’اصول الشاشی‘‘، ’’شرح الوقایہ‘‘، ’’کنز الدقائق‘‘ وغیرہا پڑھیں ۔ اسی اثنا میں اپنے ماموں مولانا نور احمد ڈیانوی سے بھی استفادہ کرتے رہے اور بعض کتابیں پڑھیں ۔ مولانا نور احمد بھی تفقہ فی الدین میں وسیع النظر عالمِ دین تھے اور شیخ الکل سید نذیر حسین کے فیض یافتہ۔
کسبِ علم کے لیے شدِ رحال:
علامہ عظیم آبادی ۱۲۹۲ھ میں اکتسابِ علم کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے، جہاں مولانا فضل اللہ لکھنوی سے کتبِ معقولات کا درس لیا۔
قاضی بشیر الدین قنوجی کی خدمت میں :
۲۶ محرم ۱۲۹۳ھ کو مراد آباد علامہ کبیر قاضی بشیر الدین قنوجی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں ایک برس سے کچھ زیادہ قیام کرتے ہوئے بقیہ کتبِ درسیہ کی تحصیل کی۔ ربیع الاول ۱۲۹۴ھ کو ڈیانواں واپس آئے اور پھر دوبارہ ۲۰ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۴ھ کو ممدوح کی خدمت میں مراد آباد پہنچے۔ اس بار قاضی صاحب سے کتبِ معقول و بلاغت اور بعض کتبِ منقول کی تحصیل کی۔ اس کے علاوہ ترجمہ قرآن مجید اور مشکاۃ المصابیح کا بھی کچھ حصہ پڑھا۔ اس کے ساتھ ساتھ فنِ حدیث اور عقائدِ سلف صالحین کے باب میں قاضی صاحب سے خصوصی استفادہ کیا اور سند و اجازۂ حدیث حاصل کیا۔ اوائلِ محرم ۱۲۹۵ھ میں قاضی صاحب سے رخصت لے کر دہلی تشریف لے گئے۔ قاضی صاحب کے پاس مجموعی مدت اقامت تقریباً ایک برس نو ماہ رہی۔
[1] یادگارِ گوہری (ص: ۱۰۴)