کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 619
حلیہ و شخصیت:
مولانا عبد المالک آروی اپنے ایک مضمون میں علامہ عبد العزیز کے حلیے اور شخصیت سے متعلق اپنے مشاہداتی تاثرات کی روشنی میں لکھتے ہیں :
’’مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کو میں نے دیکھا تھا، میانہ قد، فراخ سینہ، بھرے بازو، با رعب بشرہ، لانبی داڑھی، گندم گوں ، عمر ساٹھ باسٹھ کے لگ بھگ ہو گی۔ یہ غالباً ۱۹۰۷ء یا ۱۹۰۸ء کا زمانہ تھا، جب کہ میں مدرسہ احمدیہ کے ابتدائی درجوں میں تعلیم حاصل کرتا تھا، اس سے کئی سال قبل مولانا ابراہیم صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ مولانا عبد العزیز صاحب مدرسہ کے مہتمم تھے۔ آپ رحیم آباد سے وقتاً فوقتاً آرہ تشریف لاتے تھے۔ مجھے آج بھی وہ سماں یاد ہے جب کہ مولانا ممدوح عصا لے کر ممبر پر کھڑے ہوتے، آپ کے لہجہ خطابت میں خاص بات تھی۔‘‘[1]
ابتدائی تعلیم:
کچھ بڑے ہوئے اور الفاظ سے شناسائی ہوئی تو والدِ گرامی نے دربھنگہ کے مشہور حافظِ قرآن حافظ مٹھو صاحب کو استاد مقرر کیا۔ان کے بعد باندہ حافظ رمضان صاحب کو مقرر کیا گیا۔ قوی الذاکرہ اور سریع الفہم ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ایک برس کی مدت میں جبکہ حیاتِ رفتہ ۱۳ ویں بہاروں سے آشنا ہو رہی تھی، قرآنِ پاک کو اپنے ذہنِ رسا اور قلبِ صفا میں محفوظ کر لیا۔ حفظِ قرآن کریم کے بعد مولانا عظمت اللہ عظیم آبادی، مولانا محمود عالم رام پوری، مولانا محمد یحییٰ بن منور حسین ہرنی عظیم آبادی اور مولانا حکیم عبد السلام دہلوی ثم آروی سے رحیم آباد ہی میں کتبِ درسیہ کی تحصیل کی۔
شیخ الکل سیّد نذیر حسین کی خدمت میں :
کتبِ درسیہ کی تکمیل کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دہلی تشریف لے گئے، جہاں مسندِ ولی اللہ ہی کے وارث سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا درسِ حدیث طلابِ علم کے لیے بڑی کشش رکھتا تھا۔ ۱۲۹۰ھ میں میاں صاحب کے دبستانِ علمی میں شریک ہوئے اور اس ’’منبعِ علم و حکمت‘‘ اور
[1] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء